ہر شام یہ کہتے ھو ___ کہ کل شام ملیں گے آتی نہیں وہ شام _______ جس شام ملیں گے اچھا نہیں لگتا مجھے _______ شاموں کا بدلنا کل شام بھی کہتے تھے __ کہ کل شام ملیں گے آتی ھے جو ملنے کی گھڑی ___ کرتے ہو بہانے ڈرتے ھو ڈراتے ھو ________ کہ الزام ملیں گے یہ راہِ محبت ھے ________ یہاں چلنا نہیں آساں اس راہ میں تم جس سے ملو ___ بدنام ملیں گے دل لے کے وہ میرا __________ آرام سے بولے بس خواب کی صورت _____ تمہیں دام ملیں گے امید ھے وہ دن بھی کبھی آئیں گے ___ سُن لو ھم تم سے ملیں گے _____ اور سرِ عام ملیں گے..!
ایک غزل تیرے لیے ضرور لکھوں گا بے حساب اس میں تیرا قصور لکھوں گا تو گفتار کا ماہر تو کردار کا ماہر پھر حُسن کو تیرے تیرا غرور لکھوں گا ٹوٹ گئے بچپن کے تیرے سارے کھلونے اب دلوں سے کھیلنا تیرا دستور لکھوں گا رہا عشق کا دعوی تجھے تمام عمر وفا کی دہلیز سے تجھے مفرور لکھوں گا خود ساختہ جو ہے تیرا جدائی کا فیصلہ ایسے ہر اقدام کو نامنظور لکھوں گا ہمیں کہنے کہ عادت نہیں لکھنے کا شوق ہے جذبوں کو اپنے کلام کی تاثیر لکھوں گا تیرا وجود ، میرا وجود مجھے ایک سا لگا پھر تجھے میں خود سے بہت دور لکھوں گا.