يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَO
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہوo پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائےo
سورۃ البقرۃ، آیت ۲۷۸ ، ۲۷۹۔
غور کرو کہ جس طرح کا گھٹیا مال تم راہ خدا میں دیتے ہو اگر وہی مال تمہیں دیا جائے تو کیا تم قبول کرو گے۔ پہلے تو قبول ہی نہ کرو گے اور اگر قبول کر بھی لو تو کبھی خوشدلی سے نہ لوگے بلکہ دل میں برا مناتے ہوئے لو گے۔ تو جب اپنے لیے اچھا لینے کا سوچتے ہو تو راہ خدا میں خرچ کئے جانے والے کے بارے میں بھی اچھا ہی سوچو۔
اگر کوئی چیز فی نفسہ تو اچھی ہے لیکن آدمی کو خود پسند نہیں تو اس کے دینے میں کوئی حرج نہیں۔البتہ حرج وہاں ہے جہاں چیز اچھی نہ ہونے کی وجہ سے نا پسند ہو۔۔
طیبات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو عمدہ بھی ہوں، حلال بھی ہوں اور حلال طریقہ سے کمائی بھی گئی ہوں۔ کیونکہ اس طرح خرچ کرنے کے تین مقاصد ہیں۔ غریب کا فائدہ ، اپنے نفس کی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی رضا۔ اور یہ مقاصد تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ عمدہ اور پاکیزہ چیز خرچ کی جائے۔ اگر ردی چیز خرچ کی تو نہ غریب کو کچھ فائدہ پہنچا، نہ بخل کی آلودگی سے نفس کی صفائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ ذات جو اپنے بہتر سے بہتر انعامات کی بارش تم پر فرما رہی ہے جب اس کے نام پر دینے کا وقت آیا تو سب سے ناکارہ چیز تم نے اس کی راہ میں دے دی تو وہ کیونکر راضی ہو گا۔ نیز زمین کی پیداوار میں سے بھی راہ خدا میں خرچ کیا کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌO
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بیشک اﷲ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۶۷۔
اپنے صدقے برباد نہ کرو: ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! جس پر خرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اپنی واہ واہ کروانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھو جیسے کہ ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو ، اگر اس پر زور دار بارش ہو جائے تو پتھر بالکل صاف ہو جاتا ہے اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے لیکن روز قیامت وہ تمام اعمال باطل ہوں گے کیونکہ وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کر دینا چاہیئے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔
سنن نسائی میں ہے، تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں، ماں باپ کا نافرمان، شراب کا عادی اور دے کر احسان جتانے والا۔(ابن کثیر)
اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر ۲۶۴۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت نہ کرے گا، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا۔ ان میں سے ایک (کسی کو کچھ) دے کر احسان جتانے والا ہے۔۔
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۶۴ میں اہل ایمان کو صدقات میں اخلاص اختیار کرنے اور ریاکاری سے بچنے کا حکم فرما کر مثال دے کر سمجھایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ0
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۵۴ میں اللہ عزوجل کے دیے ہوئے رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب بیان ہو رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیںo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۵۴۔
قرآن پاک میں ہے ، واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھویٰ ۔فان الجنتہ ھی الماویٰ۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔(نازعات ، ۴۰۔۴۱)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اے جوانو! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے۔ اور جس کو نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑتا ہے۔ (صحیح بخاری)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَO
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo
سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۸۳
اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ " شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہمبستری سے بچا جائے"۔ (تفسیر خازن)
روزہ ایک قدیم عبادت: اس آیت میں فرمایا گیا جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں۔
مقتول تو قتل ہو چکا، اب اس کے عوض ایک دوسرے آدمی کو تختہ دار پر لٹکانا بے رحمی نہیں تو کیا ہے۔ یہ لوگ خوف ناک حقائق کو دلکش عبارتوں سے حسین تو بنا سکتے ہیں لیکن نہ ان کی حقیقت کو بدل سکتے ہیں اور نہ ان کے برے نتائج کو رو پذیر ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جس ملک کے قانون کی آنکھیں ظالم کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھ کر پر نم ہو جائیں وہاں مظلوم و بے کس کا خدا ہی حافظ۔ وہ ملک اپنی آغوش میں ایسے مجرموں کو ناز و نعم سے پال رہا ہے جو اس کے چمنستان کے شگفتہ پھولوں کو مسل کر رکھ دیں گے۔ وہ دین جو دین فطرت ہے، جو ہر قیمت پر عدل و انصاف کا ترازو برابر رکھنے کا مدعی ہے اس سے ایسی بے جا بلکہ نازیبا ناز برداری کی توقع عبث ہے۔۔۔ اللہ عزوجل اہل ایمان کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور اپنی اطاعت و بندگی میں جینا اور مرنا نصیب فرمائے۔ آمین۔۔۔
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَO
اور تمہارے لئے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خوں ریزی اور بربادی سے) بچوo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 179۔
یعنی اگر ناحق قتل کرنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی تو اس کا حوصلہ بڑھے گا۔ اور مجرمانہ ذہنیت کے دوسرے لوگ بھی نڈر ہو کر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیں گے۔ لیکن اگر قاتل کو اس کے جرم کے بدلے قتل کر دیا گیا تو دوسرے مجرم بھی اپنا بھیانک انجام دیکھ کر باز آ جائیں گے۔ اس طرح ایک قاتل کے قتل کرنے سے بے شمار معصوم جانیں قتل و غارت سے بچ جائیں گی۔ آج بعض ملکوں میں قتل کی سزا منسوخ کر دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سزا ظالمانہ ہے
اور دوسری طرف قاتل کو بھی ہدایت فرمائی کہ وہ احسان فراموش نہ بنے بلکہ خوشی خوشی جلدی جلدی خون بہا ادا کر دے۔ اور آ گے یہ بھی فرما دیا کہ یہ محض تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے رعایت و مہربانی ہے کہ اس نے قتل کی سزا صرف قتل ہی مقرر نہیں فرمائی بلکہ خوں بہا ادا کرنے کی بھی گنجائش رکھی ہے۔
فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ: اب تصفیہ ہو جانے کے بعد جو بھی زیادتی کرے ، قاتل ہو یا مقتول کے رشتہ دار، اسے درد ناک سزا دی جائے۔ ہر ایک کو قانون کا احترام اور اس کی پابندی کرنی چاہیئے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے قصاص لینے، حد قائم کرنے اور تعزیرات لگانے کا حق افراد کو نہیں دیا بلکہ صرف حکومت وقت کو دیا ہے کیونکہ عدل و انصاف قائم رکھنے کی صرف یہی صورت ہے۔ اگر افراد کو یہ حق مل جائے تو وہ افراتفری پیدا ہو کہ الامان۔۔۔
قرآن مقتول کے غضب ناک وارثوں کو یاد دلاتا ہے کہ قاتل مجرم ہے، قصور وار ہے اور تمہارا غصہ بے جا بھی نہیں، تاہم تمہارا اسلامی بھائی تو ہے۔ اخوت ایمانی کا رشتہ تو ابھی بھی قائم ہے۔ اگر بخش دو، معاف کر دو تو کوئی بڑی بات نہیں۔مقصد یہ ہے کہ ٹوٹے ہوئے دل پھر جڑ جائیں۔ اور اسلامی معاشرے کے دامن میں جو چاک پڑ گیا ہے اسے پھر سی دیا جائے۔ اس میں خوارج کا ابطال بھی ہے کہ جو مرتکب کبیرہ کو کافر کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کے پاک کلام کی یہی لطافتیں تھیں جنہوں نے عرب کے سرکشوں مطیع بنا دیا تھا۔
فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ: یہاں مقتول کے وارثوں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ جس بھائی پر تم نے اتنا احسان کیا کہ اس کی جاں بخشی کر کے دیت قبول کر لی تو اب اس سے خوں بہا اس احسن طریقہ سے طلب کرو کہ اسے تکلیف نہ ہو۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain