اور اس احسان کا بیان ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کو قصاص و عفو میں مختار کیا، چاہیں قصاص لیں چاہیں تو معاف کر دیں۔
دیت یا خوں بہا: قانون قصاص میں ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ اگر مقتول کے وارث قاتل سے صلح کرنا چاہیں تو وہ خوں بہا لے کر صلح کر سکتے ہیں۔ کیونکہ قتل کا جرم صلح کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی تھیں، اسلام نے ان خرابیوں کا احساس کرتے ہوئے صلح کی اجازت دے دی۔
من اخیہ کا لفظ بڑی شان رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں کہ جب قاتل قتل کا ارتکاب کر چکا ہے، محبت ، پیار ، رحم اور شفقت کے تمام رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔ عداوت اور انتقام کی آگ بھڑکنے لگی ہے
شان نزول : اسلام سے پہلے عرب میں دستور تھا کہ اگر طاقتور قبیلے کا کوئی شخص قتل کر دیا جاتا تو وہ صرف قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے بلکہ قاتل کے قبیلہ کے دس دس بیس بیس آدمی قتل کرنا اپنا حق سمجھتے۔ اگر کسی آزاد کو غلام قتل کر دیتا تو غلام کے بدلے غیر قاتل آزاد کا سر قلم کیا جاتا اور اگر عورت قتل کرتی تو مرد کو قتل کیا جاتا۔ اسی ظالمانہ اور غیر اسلامی دستور پر صدیوں عمل ہوتا رہا ۔ اور عرب اپنی نسلی نخوت اور قبائلی برتری کی تسکین بے گناہوں کا خون بہا بہا کر کرتے رہے۔ قرآن کریم نے اس دستور کو یک قلم منسوخ کر دیا اور حکم دیا کہ مقتول کا قاتل ہی قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام۔ قرآن کریم میں قصاص کا مسئلہ کئی جگہ بیان ہوا ہے۔ اس آیت میں قصاص اور عفو دونوں کے مسائل ہیں۔
اے ایمان والو! تم پر اُن کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ البقرۃ ہی کی آیت نمبر ۱۷۸ میں خالق ارض و سماوات نے معاشرے میں ظلم و نا انصافی کے خاتمے ، اپنے مظلوم و مجبور بندوں کی داد رسی اور حفاظت اور معاشرے میں امن و سکون کو قائم رکھنے کے لئے نہایت ہی اہم قوانین عطا فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَى بِالْأُنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌO
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ۔ اے ایمان والو !!!
اُن کا اُس کے جسم کے علاوہ اس کی عادات و اطوار پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ چنانچہ جیسی غذا سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے جسم کے اندر اُسی طرح کی خصوصیات و صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر انسان کی غذا پاک اور حلال ہو تو اس میں اچھی صفات پیدا ہو تی ہیں۔ دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور اطاعت و بندگی کا شوق بڑھ جاتا ہے۔لیکن اگرانسان کا کھانا پینا حرام اور خبیث ہو تو اس سے انسان کے دل کی سختی اور تاریکی بڑھ جاتی ہے اور خوف ِخدانکل جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایسے انسان سے نیک اعمال بجا لانے کی قوّت سلب ہو جاتی ہے۔۔۔
اللٰھم اکفنا بحلالک عن حرامک واغننا بفضلک عمن سواک۔
مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرۃرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر (کر کے حج یا عمرے کے لئے ) آتاہے، (سفر کی وجہ سے)اس کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ، (اور اس حالت میں )وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاکر کہتا ہے: ’’اے میرے رب!اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہوتا ہے ، اس کا پینا حرام ہوتا ہے، اس کا لباس حرام ہوتا ہے اور حرام ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہوتی ہے۔ تو(ایسے میں) اُس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟‘‘
حلال و طیب سے مراد یہ ہے کہ کسی حرام ذریعے سے کمایا ہوا نہ ہو مثلاً ڈاکہ زنی، چوری، سود، رشوت، دھوکا بازی اور دیگر حرام معاملات۔ اسی طرح پاکیزہ سے مراد یہ ہے کہ ناپاک نہ ہو مثلاً مردار، خنزیر کا گوشت، شراب اور دیگر ناپاک اشیاء۔ انسان جو غذائیں استعمال کرتا ہے .
حلال و حرام ۔ ان آیات میں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو۔ اور میری شکر گزاری کرو۔ لقمہ حلال دعا اور عبادت کی قبولیت کا سبب ہے، اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا۔ دعا کی قبولیت کا حلال کھانے سے گہرا تعلق ہے۔ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میری دعائیں قبول ہو جایا کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا ، اے سعد اپنا کھانا پاک بنا لو ، مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے ، بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۷۲ اور ۱۷۳ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو حلال و حرام کی تمیز سکھاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَO إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْ۔زِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ ۔
اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہوo اس نے تم پر مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے
امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ اٹھیں ، اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں چلے جائیں۔ کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف بڑھیں گے۔ فرشتے کہیں گے ، کہاں جارہے ہو؟ یہ کہیں گے جنت میں۔ وہ کہیں گے، ابھی تو حساب بھی نہیں ہوا۔ کہیں گے کہ ہاں حساب سے بھی پہلے۔ پوچھا جائے گا کہ آخر آپ کون لوگ ہیں۔جواب دیں گے کہ ہم صابر لوگ ہیں، اللہ عزوجل کی فرمانبرداری کرتے رہے اس کی نافرمانی سے بچتے رہے اور آخر تک اس پر جمے رہے۔ فرشتے کہیں گے ، پھر تو ٹھیک ہے۔ بے شک تمہارا یہی بدلہ ہے اور تم لوگ اسی لائق ہو۔۔۔
اللہ عزجل کی معیت سے مراد یہاں خصوصی معیت ہے، یعنی تائید و نصرت کی معیت۔
صبر ، حرام اور گناہ کے کاموں کے ترک کرنے، اطاعت اور نیکی کے کاموں کو انجام دینے، دکھ درد اور مصیبت کے پہنچنے پر کیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں پر استقلال سے جمے رہنا ، چاہے انسان پر شاق گزرے اور طبیعت کے خلاف ہو، یہ بھی صبر میں داخل ہے۔ اسی طرح اللہ عزوجل کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا بھی صبر ہے چاہے طبعی میلان اس طرف ہو اور خواہش نفس اکسا رہی ہو۔
صبر اور نماز ۔ صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں۔ اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی ، عزم کی وہ پختگی اور خواہشات نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلہ میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستہ پر لگاتار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر انسان اپنے اندر یہ قوت پیدا کر لے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ نماز کے ذریعے اپنا رشتہ عبدیت اپنے رب حقیقی سے محکم کر لے تو پھر کوئی مشکل اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ حضور کریم ﷺ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی مشکل کام آ پڑتا تو فوراً نماز پڑھنے لگتے۔
اس سلسلے کی دوسری آیت سورۃ البقرۃ ہی کی آیت نمبر ۱۵۳ ہے۔ جس میں اللہ عزوجل اپنے اہل ایمان بندوں کو اپنی مدد پانے اور اپنی معیت حاصل کرنے کا راز بتا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہےo
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 153۔
اس سے پہلے کی آیت میں شکر کی تلقین کی گئی ہے اور اب اس کے ساتھ صبر اور نماز کا ذکر کر کے ان بڑے بڑے نیک کاموں کو ذریعہ نجات بنانے کو حکم ہو رہا ہے۔حدیث میں ہے کہ مومن کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ ہر کام اس کے لیے سراسر بھلائی ہے۔ اسے راحت ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے۔اور اگر رنج پہنچتا ہے تو صبر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے۔
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا
کہ اس آسماں کے نیچے عرش عظیم سے بھی نازک تر جگہ بارگاہ رسالت ﷺ ہے کہ جہاں جنید بغدادی و بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہما جیسی بزرگ ہستیاں بھی دم بخود حاضر ہوتی ہیں۔۔۔
اور "واسمعو" کا حکم دے کر یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ جب میرا رسول تمہیں کچھ سنا رہا ہو تو ہمہ تن گوش ہو کر سنو۔ تاکہ انظرنا کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کیونکہ یہ بھی تو شان نبوت کے مناسب نہیں کہ ایک ایک بات تم بار بار پوچھتے رہو۔
یہ کمال ادب اور انتہائے تعظیم ہے جس کی تعلیم عرش و فرش کے مالک نے غلامان مصطفٰے علیہ الصلاۃ والسلام کو دی ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں اس آیت مبارکہ کے فیضان سے بہرہ مند فرمائے اور اس کی برکت سے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کے ادب اور تعظیم کو ہمارے دلوں میں راسخ فرما دے کہ "ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں"۔
لیکن یہود کی عبرانی زبان میں یہی لفظ ایسے معنی میں استعمال ہوتا جس میں گستاخی اور بے ادبی پائی جاتی۔ اللہ تعالٰی کو اپنے محبوب کی عزت و تعظیم کا یہاں تک پاس ہے کہ ایسے لفظ کا استعمال بھی ممنوع فرما دیا جس میں گستاخی کا شائبہ تک بھی ہو۔ چنانچہ علماء کرام نے تصریح کی ہے "فیھا دلیل علی تجنب الالفاظ المحتملۃ التی فیھا التعریض للتنقیص والغض" (قرطبی)۔ یعنی اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر ایسے لفظ کا استعمال بارگاہ رسالت میں ممنوع ہے جس میں تنقیص اور بے ادبی کا احتمال تک ہو۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے شخص کو حد قذف لگانے کا حکم دیا ہے۔
"راعنا کی جگہ انظرنا" (یعنی ہماری طرف نگاہ لطف فرمائیے) کہا کرو۔ کیونکہ یہ لفظ ہر طرح کے احتمالات فاسدہ سے پاک ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت ۱۰۴۔
"راعنا" ذومعنی لفظ ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ہماری رعایت فرمائیے اور صحابہ کرام جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے کسی ارشاد گرامی کو اچھی طرح سمجھ نہ سکتے تو عرض کرتے راعنا یا رسول اللہ۔ ہم پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔ ہماری رعایت فرماتے ہوئے دوبارہ سمجھا دیجیئے۔
قرآن مجید میں تقریباً ۸۹ آیات " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ" کے الفاظ کے ساتھ شروع ہو رہی ہیں۔ کوشش کریں گے کہ ان تمام آیات کو افادہ عامہ کے لیے عام فہم اردو ترجمہ اور مختصر تفسیر کے ساتھ پیش کر دیا جائے۔ ان شاء اللہ العزیز اس حوالے سے مختلف کتب و تفاسیر سے خوشہ چینی کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وباللہ التوفیق۔۔۔
ایک مرتبہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام اصحاب صفّہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :" تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ صبح کو وادی بطحان یا عقیق جائے اور وہاں سے موٹی تازی خوبصورت دو اونٹنیاں لے آئے اور اس میں کسی گناہ وقطع رحمی کا مرتکب بھی نہ ہو ؟" صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم سب یہ چاہتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :" تمہارا ہر روز مسجد جاکر دو آیتیں سیکھ لینا دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے اور تین آیتیں سیکھ لینا تین اونٹنیوں سے بہتر ہے اسی طرح جتنی آیتیں سیکھو گے اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہے"
{ صحیح مسلم و ابو داود }
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تم قرآن کریم میں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو۔ کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہوگی۔ حضرت خیثلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے یا ایھا المساکین فرمایا ہے لیکن امت محمدیہ کو يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے" (تفسیر ابن کثیر)۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain