اگرچہ قرآن مجید پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اور اس میں ہر شخص کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں پر خالق ارض و سماوات نے "یا ایھا الذین آمنو " کہہ کر بڑے پیار بھرے انداز میں خاص طور پر ہم مسلمانوں سے خطاب فرمایا ہے۔ اور" اے ایمان والو" کا لقب عطا فرما کر ہماری عزت افزائی فرمائی ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم کم از کم قرآن پاک کی ان آیات کا علم تو حاصل کر ہی لیں کہ جہاں پر ہمارے رب عزوجل نے ہمیں خاص طور پر مخاطب کر کے کوئی پیغام عطا فرمایا ہے۔ بعید نہیں کہ اللہ عزوجل اس کی برکت سے پورے قرآن مجید کو اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس پر کما حقہ عمل کرنے کی سعادت عطا فرما دے۔
خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ "
تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔۔۔
( صحیح بخاری، سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی فلاح و کامرانی کے لیے جو صحیفہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب منیر پر نازل فرمایا ، اسے ہم قرآن مجید کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ صحیفہ بیک وقت کتاب بھی ہے اور علم و معرفت کا آفتاب جہاں تاب بھی۔ جس میں زندگی کی حرارت اور ہدایت کا نور دونوں یکجاں ہیں۔ اس کا فیض ہر پیاسے کو اس کی پیاس کے مطابق سیراب کرتا ہے۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ0
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے۔
سورۃ القمر ، آیت نمبر 17 ۔
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
ترجمہ : پروردگار تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں ۔
تفسیر : حضرت موسی علیہ السلام اتنا لمبا سفر کر کے مصر سے مدین پہنچے تھے ، کھانے کو کچھ نہ تھا ، جب کہ سفر اور بھوک سے نڈھال تھے ۔۔۔ خیر کئی چیزوں پر یہ بولا جاتا ہے ، کھانے پر ، امور خیر اور عبادات پر ، قوت وطاقت پر ، اور مال پر ۔۔
فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًاترجمہ : پس اللہ تعالی عالی شان والا سچا اور حقیقی بادشاہ ہے ، تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری کی جائے ، ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار میرا علم بڑھا ۔
رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ١ؕ وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَؒ۰۰۱۱۲(الانبیاء(
’’ اے میرے رب، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے ، اور لوگو! تم جو باتیں بناتے ہو ان کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمان ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے
رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ ٱلْوَهَّابُ
'' ائے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیںاپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقننا تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے''سورة آل عمران آیت 8
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِاے ميرے رب مجھے نماز قائم كرنے والا بنا اور ميرى اولاد ميں سے بھی۔ اے ہمارے رب دعا قبول فرما لے ۔سورة ابراهيم
مغفرت اور رحمت طلب كرنے كى دعا
اللہ تعالى نے قرآن مجيد ميں ان الفاظ ميں مغفرت اور رحمت طلب كرنے كا حكم ديا ہے ۔
وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (118) سورة المؤمنون
ترجمہ : اور كہہ ديجیے كہ اے رب ، (ميرى) مغفرت كر اور رحم كر ، اور تو سب بہتر رحم كرنے والا ہے ۔
رَبَّنَا اٰتِنَا مِن لَّدُنکَ رَحمَۃً وَّ ھَیِّئ لَناَ مِن اَمرِنَا رَشَدًا: سورہ الکھف ایۃ 10اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راہ یابی کو آسان کر دے-اصحاب الکھف یعنی چند نوجوانوں نے اپنا ایمان و دین بچانے کے لیے جب غار میں پناہ لی تو یہ دعا مانگی-
والدين کے ليے دعا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (24) سورة الإسراء ترجمہ : اے ميرے رب ، ميرے والدين پر رحم فرما جس طرح انہوں نےبچپن ميں مجھے پالا تھا ۔
جنت میں گھر طلب كرنے كى دعا
رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ( جزء آيت نمبر: 11، سورت التحريم) ترجمہ : اے ميرے رب، ميرے ليے اپنے ہاں جنت ميں ايك گھر بنا دے۔۔
يہ دعا فرعون كى بيوى حضرت آسيہ (عليہا السلام ) نے کی تھی ۔
رَبِّ اِشرَح لِی صَدرِی 0 وَ یَسِّر لِی اَمرِی
سورۃ طہ : آیت نمبر 25 اور 26
ترجمہ : اے میرے رب ! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما اور میرا کام میرے لئے آسان فرما ۔
بسم اللہ الرحمان الرحیم،
السلام و علیکم
یاالله ہم تیری پناہ چاھتے ہیں, ہر برے دن سے, ہر بری رات سے,ہر بری گھڑی سے,آنے والے وقتوں کی آفتوں، بلاؤں، مصیبتوں، پریشانیوں،دُکھوں اور بیماریوں سے.
یارب العٰلمین!صَحت وسلامتی کی ڈھیروں دُعاؤں کے ساتھ
اللہ مجھے اور آپکو آسانیاں عطا فرماے اور آسانیاں تقسیم کرنے کاشرف عطافرما،
آمین ثم آمین
صبح بخیر
جب وہ دوسروں کو بھی برائی سے روکے تو لوگوں کو اسکے خلاف کر دیتا ہے اور پھر مومن کو غصہ دلاتا ہے۔ ایسے موقع پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور لوگوں کو نرم لہجے میں نیکی کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
جب بندہ اس وار سے بھی بچ نکلے تو شیطان ناکام ہے۔ اب وہ اس بندہ مومن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ شیطان کے ان تمام حربوں سے بچیں۔ چھوٹے گناہ سے اجتناب کریں۔ خود بھی نیک عمل کریں اور صرف اسی پر اکتفا نہ کریں بلکہ جہاں تک ممکن ہو دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دیں۔
﴿وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ ”
اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پیغام پہنچا دینا ہے۔
جب بندہ چھوٹے گناہ بھی نہ کرے اور اس وار سے بھی بچ نکلے تو پھر یہ خیال ڈالتا ہے کہ نیک کام اپنے تک محدود رکھے۔امربالمعروف ونہی عن المنکر نا کرے دوسروں کو برائی سے نا روکے۔ وہ دوسروں کا محافظ نہیں ہے۔ مگر اللہ نے ہمارے اوپر فرض کیا ہے کہ ہم لوگوں کو برائی سے روکیں اور نیکی کا حکم دیں۔
شیطان کیسے وسوسے ڈالتا ہے ؟
1 - پہلے تو وہ برائی کی دعوت دیتا ہے جو بندہ اسکی دعوت پر لبیک کہتا ہےتو وہ گنہگار اور اسکا رفیق بن جاتا ہے۔
2 - جب بندہ برائی کی طرف نا جائے اور نیک كام میں مشغول ہو تو یہ خیال ڈالتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کبھی کبھی چھوٹے گناہ بھی کر لینے چاہیے۔ ہمارے اکثر دوست بھی ایسا ہی کہتے ہیں حالانکہ حدیث ہے کہ جن گناہوں کو تم چھوٹا سمجھتے ہو اُنسے خاص طور پر بچو۔
سورہ الناس آیت نمبر 05 :
وہ جو وسوسے ڈالتا ہے لوگوں کے سینوں میں !!
تفسیر :
کسی بھی برے خیال کو وسوسہ کہتے ہیں۔ اسی برے خیال سے ہمارے اندر برائی کا عزم پیدا ہوتا ہے اور پھر ہم وہ برائی کے بیٹھتے ہیں۔ تو اسی لیے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں وسوسے سے ہی پناہ دے تاکہ برائی کا عزم ہی پیدا نہ ہو۔
آپ غور کریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن ہماری شکایت کریں گے کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت ہماری کیا شفاعت ہوگی ، کون اللہ کے غضب سے بچائے گا۔۔ اللہ اکبر
فائدے :
#- قرآن سیکھنا فرض ہے ہمارے اوپر
#- قرآن سیکھنے سے ہماری نماز بہتر ہوگی۔
#- قرآن سیکھنے سے ہماری دعاؤں میں اثر ہوگا کیوں کہ ہمیں پتہ ہوگا کہ ہم دعا میں کیا مانگ رہے ہیں
جب تک ہم قرآن سیکھیں گے نہیں ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ قرآن میں کس مضمون کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ اللہ کہاں ناراض ہو رہا ہے اور کہا شکوہ کر رہا ہے۔ قرآن تو کہتا ہے جب مومنین کو آیات پڑھ کر سنائی جائیں تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ہیں اور ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا تو نہیں بڑھتا اور نہ ہی ہمارا دل ڈرتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کیونکہ ہمیں مطلب ہی کا علم نہیں۔ قرآن کے مصداق ہم صم،بکم ،عمی بن کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمیں دن رات قرآن پاک کی آیات پڑھ کر کوئی اثر نہیں ہے ۔
اور رسول کہیں گے کہ اے اللہ میری قوم اس قرآن کو بلکل چھوڑ بیٹھی تھی۔ (الفرقان -30)
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain