زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
بس اتنی بات تھی، کہتے تو ہم، ترمیم کر لیتے!! سفر کو بانٹ لیتے ہم، تھکن تقسیم کرلیتے!! اگر ہم سے شکایت تھی تو پھر اظہار کرنا تھا!! معافی مانگ لیتے ہم، خطا تسلیم کر لیتے!!
رونا تھا بہت دیر مجھے خود سے لپٹ کر پر تُجھ سے جدا خود کو میّسر نہ ہُوا مٙیں اِس طرح سے بکھرا کہ ترے ہاتھ نہ آیا ٹُوٹا ہوں مگر دیکھ ! مُسخّر نہ ہُوا مٙیں