نمی دے کر جو مٹی کو مسلسل گوندھتے ہو تم بتاؤ کیا بناؤ گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کوئی کوزہ، کوئی مورت یا پھر محبوب کی صورت؟ سخن ور ہوں، کہو تو مشورہ اک دوں؟ یہ گھاٹے کا ہی سودا ہے۔۔۔۔۔ یہاں مٹی کی مورت کی اگر آنکھیں بناؤ گے تمہیں آنکھیں دکھائے گی۔۔۔ تراشو گے زباں اس کی تو تُرشی جھیل پاؤ گے؟؟ اگر جو دل بنایا تو ہزاروں خواہشیں بن کر تمہیں تم سے ہی مانگے گی۔۔۔۔ عطائے خلعت احمر اسے خود سر بنادے گی !! وہاں اپنی محبت کا جو نادر تاج پہنایا خدا خود کو ہی سمجھے گی !! ابھی بھی وقت ہے مانو ارادہ ملتوی کر دو، اسے مٹی ہی رہنے دو۔۔۔ zee
" میرا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ انسان اچانک نہیں مرتا بلکہ تنہا ، تھوڑا تھوڑا مرتا ہے،____ جب اس کا کوئی دوست چلا جاۓ تو وہ تھوڑا سا مرجاتا ہے جب اس کا کوئی پیارا اُسے چھوڑ جاتا ہے تو تھوڑا سا اور مر جاتا ہے یوں جب اس کا کوئی خواب پورا نہیں ہوتا تو وہ تھوڑا سا اور مر جاتا ہے ، پھر آخر میں ان سب مرے ہوۓ ٹکڑوں کو ڈھونڈنے کے لیے موت آتی ہے ، اور وہ ان سب کو سمیٹ کر لے جاتی ہے" __ خلیل جبران 🖤
انسان کو اپنے دکھ سیلیبریٹ کرنے چاہئیے جیسے منہ پہ ہنسی سجا کر,,, اچھے سے بال بنا کر اپنے پسندیدہ کپڑے پہن اور پسند کے رنگ کا انتخاب کر کے... کوئی دیکھے تو بکھرا ہوا مت سمجھے,,, مجھے ہمدردی زہر لگتی ہے...
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں ایک جوکر ہوں جو روز اسٹیج پر پرفارم کرتا ہے ، داد وصول کرتا ہے ، پردہ گرتا ہے اور پھر اگلے دن اگلا شو ، نئی داد ، نیا انداز۔ کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ تمام الفاظ بیکار ہیں، ساری قدریں ردی ، سب افکار دھواں۔ دنیا ایک ہجوم ہے ماسک پہنے لوگوں کا انبواہ ہے ماسک کے پیچھے ڈراونی مخلوق ہے۔ سب آپ تماشا ہیں اور آپ ہی تماشائی، رشتے، ناطے، دوستی، میل جول،باہمی داد و تحسین، مروت، کی تہوں کے بیچ ایک کھردی تہہ چہروں پر موجود ہے جس کے پیچھے کا انسان خلائی مخلوق ہے، ایلین ہے، اپنے زمانے سے کٹا ہوا۔ یہاں کوئی شے اصل نہیں، اصل کیا ہو ؟ نہ آپ اصل ہیں نہ میں، نہ نظام اصل ہے نہ نظام چلانے والے، نہ غیر اصل نہ اپنے، لمحہ بہ لمحہ ایک مسلسل دھوکا ہے جو خود کو ہی دیتے سانس لیئے جا رہے ہیں۔ ن