سائیاں وہ میرا یار ستارہ شناس تھا۔ افسوس اس کا مجھ سے ستارا نہیں ملا۔ سائیاں ندی کے بہنے کاانداز دیکھ اب۔ شاید کے پانیوں کو کنارہ نہیں ملا۔ سائیاں ہمیں کسی سے شکایت نہیں کوئی۔ سائیاں ہمیں تو خود کا سہارہ نہیں ملا۔
شہربھر کی یہ اداسی نہیں دیکھی جاتی۔ کوئی ہنستی ھوئی تصویر لگا ڈی پی پہ۔
اتنا کھایا نہیں تھا نمک تیرا۔ جتنا چھڑکا ہیں تو نے زخموں پر۔
Aj wo bat likhy .jo zindgi se sikhi ha
ہم نے اعتراف محبت کے بعد ۔ اکثر محبت کو پھیکا پڑتے دیکھا ہیں۔
یوں نہ تلخ لہجے میں بات کیجئے۔ آپ کی بے رخی مجھے اکثر اداس رکھتی ہیں۔
رنگ پھولوں نے چنے آپ سے ملتے جلتے۔ اور بتاتے بھی نہیں کون یہاں آیا تھا۔
ان کو دیکھ کر جو آ جاتی ہیں چہرے پر رونق۔ وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہیں۔
Ap hans skte ha mujh par. Ap par beti jo nhi
Tum se milte ha tu dunya ko bhula dete ha
اس دورے بے رخی میں اس قدر پاس رہنا۔ بس اک یہی کام تھا جو ہم غلط کرتے رہیے
ایسی تصویر بنا روتے ھوئے خوش بھی لگوں۔ غم کی ترسیل تو ھو غم کا تماشہ نہ بنے
جا کوئی اور دنیا تلاش کر۔ اے عشق اب ہم۔تیرے قابل نہیں رہے
یہی خیال میری زندگی کا حاصل ہیں ۔ مجھے گنوا کے میرا یار سرخروں ہیں بہت۔
خدارا لوگوں کو جینے دے۔ وہ ایک دن خود ہی مر جائیں گے۔
بچھڑنے کا کوئی اور بہانا ڈھونڈوں۔ پیار بڑھتا ہیں میری جان خفا ھونے سے۔
تو جلدی کیجئے
اک خوشی دے کے آزمالے خدا ۔ان غموں سے تو میں نہیں مرتا۔
آساں دوکھاں دینا سکھیاں نئی۔ پاوے لیکھ چ بیلی لکھیاں نئی
اسا لوگ سر پھرے آ جیتھے لائیے پکیا ں لاندے آ۔۔ اسی او سکھیاں اے تبعداری🙏 سنگیاں دی