کبھی لفَظ بھول جاؤں کبھی بات بھول جاؤں تجھے اسِ قدر چاہوں کہ اپنی ذات بھول جاؤں اُٹھ کر جو کبھی ترے پاس سے چل دُوں جاتے ہوئے خود کو ترے پاس بھول جاؤں کیسے کہوں تم سے کہ کتنا چاہا ہے تمہیں! اگر کہنے پہ آؤں تم کو تو اِلفاظ بھول جاؤں
`اے اداس روح`! دنیا اور اس دنیا میں موجود ہر ذی روح تم سے اکتا کر تمہیں تنہا چھوڑ سکتی ہے، لیکن وہ تمہارا خالق تمہیں تمہاری کوتاہیوں کے باوجود بھی کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
سَپنا آگے جاتا کیسے" چھوٹا سا اِک گاؤں تھا جِس میں دیئے تھے کَم اور بہت اَندھیرا بہت شَجَر تھے تھوڑے گھر تھے جِن کو تھا دُوری نے گھیرا اِتنی بڑی تَنہائی تھی جِس میں جاگتا رہتا تھا دِل میرا بہت قَدِیم فِراق تھا جِس میں ایک مُقَرَّر حَد سے آگے سَوچ نہ سَکتا تھا دِل میرا اَیسی صُورَت میں پِھر دِل کو دھیان آتا کِس خواب میں تیرا راز جو حَد سے باہر میں تھا اپنا آپ دِکھاتا کیسے سَپنے کی بھی حَد تھی آخِر سَپنا آگے جاتا کیسے۔۔۔ منیرؔ نیازی