کچھ لوگ تمھیں سمجھائیں گے وہ تم کو خوف دلائیں گے جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے اس راہ میں رہزن ہیں اتنے کچھ اور یہاں ہو سکتا ہے "کچھ اور" تو اکثر ہوتا ہے پر تم جس لمحے میں زندہ ہو یہ لمحہ تم سے زندہ ہے یہ وقت نہیں پھر آئے گا تم اپنی کرنی کر گزرو جو ہوگا دیکھا جائیگا (فہمیدہ ریاض)
غم صرف وہ نہیں جو آنسوؤں کا سبب ہوتا ہے، جس کو دیکھ کر کوئی بھی آپ کی اندرونی حالت کا اندازہ لگا سکتا ہے بلکہ اصل غم تو وہ ہے جوآپ کو اندر اندر کھا رہا ہوتا ہے اور آپ بظاہر مسکرا رہے ہوتے ہیں اور کسی کو اِس کی کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی.
خودار میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا راشن جو آ رہا تھا وہ افسر کے گھر گیا چڑھتی رہی مزار پہ چادر تو بے شمار باہر جو ایک فقیر تھا سردی سے مر گیا روٹی امیرِ شہر کے کتوں نے چھین لی فاقہ غریبِ شہر کے بچوں میں بٹ گیا چہرا بتا رہا تھا کہ ماراہے بھوک نے حاکم نے کہہ دیا کچھ کھا کے مر گیا
دلائل دے کہ ہم باتوں سے قائل ہی نہیں ہوتے دِکھا سیرت! فقط صورت سے مائل ہی نہیں ہوتے محبت آج کل یزدانؔ، وہ کرتا ہے جس کے پاس طوائف تک پہنچنے کے وسائل ہی نہیں ہوتے یزدانؔ نقوی
دِل چاہتا ہے غارِ اَصحابِ کہف میں جا کے سو جاؤں جب نیند سے جاگوں تو میرا یہ زمانہ گزر چکا ہو! غار کے دَہانے پر بیٹھے کتے سے پُوچھوں بتا، انسانوں کا زمانہ آ کر گزر تو نہیں گیا؟ یا تیرے ہَم جِنس اب بھی زمانے پر راج کرتے ہیں؟ گر ابھی زمانہ سَگ خَوردہ ہے تو میں غارِ اصحابِ کہف میں لوٹ جاؤں پھر سے سو جاؤں!