تمہارے بعد چشمہ صاف کرنے کا نہیں سوچا
تمہارے بعد اچھا دیکھنے کی چاہ کس کو تھی
محبت محتاج کہاں حسن و جوانی کی
ہم تو عمر کے ہر عہد میں چاہیں گے تمہیں
بھٹکتی ھے حَوّس دن رات سونے کی دوکانوں میں
غریبی کان چِھدواتی تِنکہ ڈال دیتی ھے
تو ! اپنی سانولی رنگت پہ ہو چلی هے، اداس
زوالِ حُسن کی وحشت کسی حَسین سے پوچھ
تمھارے پاؤں جمے ہیں سو تم نہ سمجھو گے
حیات کیسے گذرتی ہے لڑکھڑاتے ہوئے
پھل دار تھا تو گاؤں اسے پوجتا رہا
سوکھا تو قتل ہو گیا ___وہ بے زباں درخت
تم نے ڈھائی جو دیوار دل کی مرے
لوگ شاہراہِ دل سے_____ گزرنے لگے
رقص دیکھا ہے کبھی شاخ سے گرتے ہوئے پتوں کا
یوں جھوم کے گرتے ہیں تیری یاد میں میرے آنسو
تم اک چراغ کی خیرات دے رہے ہو مجھے،،
میں آفتاب سے ___دامن چھڑا کے آیا ہوں،،
میں اَشک بار تھا ہنستا ہُوا دِکھایا گیا
میری یہ فوٹو __غلط زاویے سے کھینچی گئی
کچھ روز یہ بھی رنگ رہا انتظار کا
آنکھ اٹھ گئ جدھر ___؛ بس ادھر دیکھتے رہے
تیرے علاوہ اور بھی مجھ کو عزیز ہیں
تُو تھام لے یہ ہاتھ مگر ہتھکڑی نہ بن
خود پسندی کی نہیں بات کرامت کی ہے
ہم نے جس شخص کو چاہا وہی مشہور ہوا
کتنے غم ہیں جو سر شام سلگ اٹھتے ہیں
چارہ گر تو نے یہ کس دکھ کی دوا بھیجی ہے
دھواں بنا کے فضا میں اُڑا دیا مجھ کو
میں جل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے بُجھا دیا مجھ کو
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے ۔۔۔۔۔۔ کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
سفید سنگ کی چادر لپیٹ کر مجھ پر
فصیلِ شہر پہ کس نے ۔۔۔۔۔۔ سجا دیا مجھ کو
میں ایک ذرہ بُلندی کو چھونے نکلا تھا
ہوا نے تھم کے زمیں پر گِرا دیا مجھ کو
نا گِلے رہے، نا گماں رہے، نا گزارشیں، نا گفتگو،
نا میں رہا، نا تم رہی، نا فرمائشیں، نا جستجو
وہ جن دنوں تو مجھ سے گریزاں تھا بے سبب۔
مجھکو تیری شدید ضرورت تھی ان دنوں
آسیب زدہ گھر کا میں وہ دَر ہوں مُحسن
دیمک کی طرح کھا گئی جسے دستک کی تمنا
ہم سے رخ موڑ کر تیرے سجدے بیکار ہیں
لفظ ""حقوق العباد"""تو سنا ہوگا تم نے
صرف اِک ترکِ تعلق کے لیے۔
تُو نے ڈھونڈے ہیں بہانے کیا کیا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain