خوش ہو اے دل کہ محبت تو نبھا دی تو نے لوگ اجڑ جاتے ہیں انجام سے پہلے پہلے اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے سامنے عمر پڑی ہے شب تنہائی کی وہ مجھے چھوڑ گیا شام سے پہلے پہلے کتنا اچھا تھا کہ ہم بھی جیا کرتے تھے فرازؔ غیر معروف سے گمنام سے ، پہلے پہلے
یہ کچی عمر کے پیار بھی بڑے پکے نشان دیتے ھیں ھیں تیر بھی تلوار بھی تازہ ھیں دل پہ وار بھی اور خوب یادگار بھی گھر جائیں وحشتیں ایسی بھی کوئ رات ھو سر سفید ھو گیا لگتا ھے کل کی بات ھو یہ کچی عمر کے پیار بھی بڑے پکے نشان دیتے ھیں آج بھی کم دھیان دیتے ھیں بہکے بہکے بیان دیتے ھیں اُن کو دیکھے ھوئے مدت ھوئ اور ھم اب بھی جان دیتے ھیں
وہ سلسلے وہ شوق وہ نسبت نہیں رہی اب زندگی میں ہجر کی وحشت نہیں رہی پھر یوں وا کہ کوئی اپنا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی ٹوٹا ہے جب سے اسکی مسیحائی کا طلسم دل کو کسی مسیحائی کی حاجت نہیں رہی پھر یوں ہوا کہ ہو گیا مصروف وہ بہت اور ہمکو یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہمکو تو ان دنوں خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی
لہو رونے سے ڈرتا ہوں‘ جُدا ہونے سے ڈرتا ہوں مری آنکھیں بتاتی ہیں کہ میں سونے سے ڈرتا ہوں مری انگلی پکڑ لینا‘ مجھے تنہا نہیں کرنا یہ دنیا ایک میلہ ہے‘ تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں جو ہنستی ہو تو کیوں پلکوں کے گوشے بھیگ جاتے ہیں تمہیں معلوم ہے میں اس طرح رونے سے ڈرتا ہوں یہ جب سے خواب دیکھا ہے مجھے تم چھوڑ جاؤ گی میں اب ڈرتا ہوں خوابوں سے میں اب سونے سے ڈرتا ہوں......