زندگی اپنی تماشہ ہی سہی، لیکن ہم،
کوئی کردار مسلسل نہیں کرنے والے!
بچهڑنا هے تو خوشی سے بچهڑو..
سوال کیسے___، جواب چهوڑو.. !
کسے ملی هیں، جہاں کی خوشیاں..
ملے هیں کس کو__، عذاب چهوڑو.. !
نئے سفر پے جو____، چل پڑے هو..
مُجهے خبر هے کہ، خُوش بڑے هو.. !
یہ کون اجڑا____، تمهارے پیچهے.. ؟!
یہ کِس کے ٹوٹے هیں، خواب چهوڑو.. !
محبتوں کے____، تمام وعدے..
نبهائے کس نے، بُهلائے کس نے.. !
تمہیں... پشیمانی هو گی جاناں..
جو میری مانو، حساب چهوڑو.. !
فتور ہوتا ہے"🥀 ہر عمر میں جُدا جُدا...."
کھلونے، عشق، پیسہ اور پھر خُدا خُدا
🖤
. اس نے کہا جی حضور ارشاد فرمائیں.
کہا جب باغ جاؤ بچوں کے ساتھ اپنے بچے کو کھیلتا ہوا دیکھ لو تو بیٹا بیٹا کہہ کر آوازیں نا دینے لگ جانا.
جو نام رکھا ہے اس نام سے پکارنا کہا حضور میرا بیٹا ہے اگر میں بیٹا کہ کر بلاؤں تو ہرج بھی کیا ہے.
فرمایا تم کئی دنوں کے بچھڑے ہو تمہارے لہجے میں بلا کا رس ہو گا
اور تم نہیں جانتے کے کھیلنے والوں میں کوئی یتیم بھی ہو.
اور جب تم اپنے بیٹے کو بیٹا کہہ کر پکارو گے اتنا میٹھا لہجہ ہو گا تو اس کے دل پر چوٹ لگے گی اور کہے گا کاش آج میرا بھی باپ ہوتا مجھے بیٹا کہ کر پکارتا.فرمایا یہ شوق گھر جا کر پورا کرنا.
آپ نے فرمایا کسی بیوہ کے سامنے اپنی بیوی سے پیار نہ کرو،غریب کے سامنے اپنی دولت کی نمائش کرنے سے روکا گیا.
حضور صل اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کے اپنے گوشت کی خوشبو سے اپنے ہمسائے کو تنگ نا کرو.end
کسی زمانے میں ایک غیر مسلم نے اسلام قبول کیا تو اس سے پوچھا گیا کے اسلام کی کس بات نے تجھے متاثر کیا.
تو وہ بولا کہ صرف ایک واقعہ میری ہدایت کا سبب بن گیا.
کہا مجلس رسول صلہ اللہ علیہ وسلم لگی ہوئی تھی لوگوں کا ہجوم تھا.
ایک شخص نے عرض کی حضور میرے لیے دعا کر دیں میرا بچہ کئی دنوں سے مل نہیںرہا مل جائے.
قبل اس کے کہ حضور کے ہاتھ اٹھتے ۔۔۔۔
ایک شخص مجلس موجود تھا کھڑا ہو گیا حضور میں ابھی ابھی فلاں باغ سے گزر کر آیا ہوں .
اس کا بچہ وہاں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا.باپ نے جب سنا کے میرا بچہ فلاں باغ میں ہے تو اس نے دوڑ لگا دی.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو روکو واپس بلاو۔۔
اس نے کہا حضور آپ جانتے ہیں کے ایک باپ کے جذبات کیا ہوتے ہیں.کہا اچھی طرح سے آگاہ ہوں.. لیکن تمہیں بلایا ہے بلانے کا بھی ایک مقصد ہے.
ایاز کہتا ہے آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا آج میں بھی ایک راز کھول دیتا ہوں۔ اے بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں..!!
End
اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے اک قصائی کو وزیر بنا لیا.
دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے اُس وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا کتوں سے شکار کھیلتا تھا اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرایا آپ کی غلطی یے کہ ایسے شخص کو وزارت دی جہاں ایسے لوگ وزیرہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ھی مرنا ہے ..
اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو ایاز سیّد زادہ ہے سیّد کی شان یہ ہے کہ سیّد اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا یے مگر بدلا لینے کا کبھی نہیں سوچتا …..سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ایاز کو مخاطب کر کہ کہتا ہے ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سیّد ہو……
ایاز کہتا ہے آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا
دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ……….
سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے اک سال اک غریب کے بچے پلتے رہے آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آیی .اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا اگر میری بات مانیں، تو اسے معاف کر دیں ……..اگر اسے قتل کر دیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے …..ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا …. ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ……
سلطان محمود غزنوی نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے…بابا جی کہنے لگا بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے
تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا…. ؟یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام میں نے آپ سے جھوٹ بولا …. میرے گھر کا خرچا پورا نہیں ہو رہا تھا بچے بھوک سے مر رہے تھے اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا…..
سلطان محمود غزنوی نے اپنے اک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے . وزیر نے کہا سر اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ھے۔ لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے . دربار میں اک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے، کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا …..
بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتاو اس نے کہا سر اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کہ مرے اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے دربار میں بیٹھے
محمود غزنوی کا دربار لگا ھوا تھا. دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے جن میں اولیاء قطب اور ابدال بھی تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کر کے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے..
سب خاموش رہے دربار میں بیٹھا اک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں زیارت کرا سکتا ہوں .سلطان نے شرائط پوچھی تو عرض کرنے لگا 6 ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہو گا لیکن میں اک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچا آپ کو اٹھانا ہو گا ……..
سلطان نے شرط منظور کر لی اس شخص کو چلہ کے لیے بھج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہو گیا…..
6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں لہٰذا 6 ماہ مزید لگیں گے ….
مزید 6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا

Ussy ishq tha meri zaat se
Mujy umr bhar ye gumaan raha...
چاند پر گرفت اپنی ایسی کہاں تھی ۔۔۔۔۔۔۔
گرفت اچھی ہوتی تو چاند بھی اپنا ہوتا۔۔
عزیز لوگوں!!! کہاں گئے ہو؟؟؟
عذاب کر کے حیات میری!
تنہا اداس چاند کو سمجھو نہ بے خبر
ہر بات سن رہا ہے مگر کچھ بولتا نہیں
کسی خسارے, کسی فائدے کی بات نہ کر
یہ کوئی مالیاتی ادارہ نہیں __ محبت ہے ❤️
ڈھونڈتا پھرے گا در بدر مجھے..!!
وہ جسے اپنی انا پہ گمان بہت ہے۔💔
رہنا نہیں اگرچہ گوارا زمین پر
لیکن اِک آدمی ہے ہمارا زمین پر
اس کی نظر بدلنے سے پہلے کی بات ہے
میں آسمان پر تھا ستارا زمین پر !

آپ جس بات پہ اترائے ہوئے پھرتے ہیں
ہم فقیروں میں اسے عیب گنا جاتا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain