اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے. جہاں ہم اپنے خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بھی بکھری پڑی ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آسکے. آمین end..gd ni8
نوجوان ایگزیکٹو نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں بنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا. وہ بی ایم ڈبلیو کار اس کے پاس پانچ سال مزید رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے". سننے والا اس کی بات سن کر اور اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا. اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے.
اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا. نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے ہھندہ سا لگ گیا. اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھا. اسے اپنے غصے پر اب ندامت محسوس ہورہی تھی. اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا. بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا. پھر وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے. پھر اس نے ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا. بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اپنے باپ کو چیئر پر بٹھا کر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا. اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا.
سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر پھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور اس سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی طرف اشارہ کرکے کہا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے آٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟". بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر حیرانی سی در آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا جہاں اس نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا. ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی پر پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی. دکھائی دے رہا تھا کہ شاید وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں جاسکی تھی. ساتھ ہی پکے ہوئے چاول گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے. "سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو."
سرگوشی سنو یا اینٹ سے بات کرو! ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. پھر اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا. ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا چب پڑ چکا تھا. اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے. "سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟
....... جو شخص اپنی بے چینی کی کیفیت میں اپنے اوپر تھوڑا سا اختیار مضبوط رکھتا ہے وہ زندگی میں ضرور کامیاب رہتا ہے اور اس کا مشکل وقت چلا جاتا ہے.....! آشفاق احمد کہتے ہیں کے ہمارے کالج میں ہمارے ساتھ ایک لڑکا نریندرا ہوا کرتا تھا جو بہت ذہین تھا اس نے ایک دن اکبر کوچوان سے پوچھا "اکبر تمہں کیسے پتہ چلتا ہے کے کون سی پارٹی ٹھیک یا غلط ہے تم تو پڑھے لکھے نہیں ہو" تو اکبر کوچوان کہنے لگا "جی جو پارٹی میز پر مکے مارتی ہے اور اس کا چہرہ لال سرخ ہو جاتا ہے. اٹھ کر کھڑی ہوجاتی ہے وہ غلط ہوتی ہے اور دوسری ٹھیک ہوتی ہے." جب آدمی کا دل بہت تنگ ہو جائے ،غصہ میں ہو ،شدت میں ہو،تو وہ اپنا وجود چھوڑ دیتا ہے اور آدمی جب اپنا وجود چھوڑ دیتا ہے تو وہ برہنہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کے اوپر کوئی بھی چیز حملہ کر سکتی ہے .
لاہور میں الحمرا آرٹس کونسل ہے - ایک مرتبہ وہاں بڑی سفید رنگ کی اور ایک نیلے رنگ کی گاڑی آپس میں ٹکرا گئیں - ٹکراؤ زیادہ خوفناک نہیں تھا گاڑیاں رُک گئیں- ایک گاڑی میں سے ایک میرے جیسے داڑھی والے لہیم شحیم برآمد ہوئے جب کہ دوسری سے ٹائی سوٹ والے صاحب باہر نکلے اور آپس میں نہایت سخت الفاظ کا تبادلہ کرنے لگے- اب دونوں صاحبان نے اپنا اصل وجود اپنی موٹروں میں رکھ دیا تھا اور وہ برہنہ ھو کر بغیر چھلکے کے کیلوں کی طرح باہر آ کر لڑنے لگے- بجلی کے تار جب تک اپنے خول میں رہتے ہیں اچھے ہوتے ہیں- خدمت کرتے ہیں ' پنکھے چلاتے ہیں ، ہوا دیتے ہیں ، روشنی کرتے ہیں لیکن جب باہر ہوتے ہیں تو جان کا نقصان کرتے ہیں- خرابی ہمیشہ تب پیدا ہوتی ہے جب انسان کو اپنی ذات پر اختیار نہیں رہتا اور وہ اپنے قلبوت سے باہر آجاتا ہے......
یاد رکھیں 65 سال کی عمر میں وہ خود کشی کے لئے تیار تھا. لیکن 88 سال کی عمر میں وہ یعنی کرنل سینڈرز، کینٹکی فرائیڈ چکن (KFC) سلطنت کا بانی اور ایک ارب پتی بزنس مین تھا۔“ کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے رستے اللہ نکال دیتا ہے end
65 سال کی عمر میں اس کی سبکدوشی کے موقع پر حکومت کی طرف سے اسے صرف 105 ڈالر کا ایک چیک ملا. اسے لگا حکومت اس چیک کے ذریعے اسے ایک نا اہل انسان ثابت کرنا چاہتی ہے... اس نےخود کشی کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اتنی بارناکام ہوا تھا کہ اب وہ مزید زندگی گزارنے کے قابل نہیں تھا؛ وہ اپنی وصیت لکھنے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا، لیکن وصیت لکھنے کی بجائے، اس نے یہ لکھا کہ زندگی میں اس نے کس کام میں مہارت حاصل کی. اس نے لکھا کہ وہ صرف ایک کام دوسروں کے مقابلے میں بہتر کر سکتا ہے اور وہ ہے کھانا پکانا... تو اس نے اپنے چیک کے عوض87 ڈالر ادھار لئے اور کچھ چکن خریدا. ایک خاص مصالحہ استعمال کر کے اس نے چکن کو تل لیا اور کینٹکی میں اپنے پڑوسیوں کو فروخت کرنے کیلئے گھر سے نکل پڑا... یاد رکھیں 65 سال کی عمر میں وہ خود کشی کے لئے تیار تھا.
5 سال کی عمر میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا . 16 سال کی عمر میں اس نے اسکول چھوڑ دیا. 17 سال کی عمر تک اس نے چار ملازمتیں کھو دیں . 18 سال کی عمر میں اس نے شادی کرلی. 18سے 22 سال کی عمر کے درمیان، وہ ایک ریلوے کنڈیکٹر رہا لیکن ناکام رہا... 19 سال کی عمر میں وہ باپ بن گیا. 20 سال کی عمر میں اس کی بیوی نے اسے چھوڑ دیا اور بیٹی کو لے گئی وہ فوج میں شامل ہوا لیکن نکال دیا گیا. اس نےقانون کی پڑھائی کے لئے درخواست دی لیکن اسے مسترد کردیاگیا. وہ ایک انشورنس سیلز مین بن گیا لیکن ایک بار پھر ناکام ہوا.. وہ ایک چھوٹے سے کیفے میں ایک باورچی اور بیرہ بن گیا. اس نے اپنی بیٹی کو اغوا کرنے کی ناکام کوشش کی، لیکن آخر کار وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو گھر واپس لانے میں کامیاب ہو گیا.