بس جیسے ہی اللہ نے اس کے دل کی آنکھیں کھولیں وہ جلدی سے اپنی بیوی کو لے کر ہسپتال کی طرف بھاگا۔ ڈاکٹر نے جلدی سے اس نیک دل خاتون کا معدہ واش کیا‘ سارا زہر نکالا اور وہ آدمی بھی اللہ کے سامنے گڑگڑایا اور اپنی کوتاہیوں پر اللہ کے حضور معافی مانگی‘ اللہ کا کرم ہوا اس کی بیوی بچ گئی ۔وہ اپنی بیوی کو بڑے اعزازو اکرام کے ساتھ گھر لے آیا۔ دن بدلے بیوی کا صبر رنگ لایا‘ اب وہی خاوند جو دوسروں کے سامنے اسکی بے عزتی اور نوکرانیوں والا سلوک کرتا تھا نہایت اکرام واعزاز کرنے لگا۔ پہلے ان کے گھر جو بھی لوگ آتے تھے وہ ان کے سامنے بیوی کو نوکرانی کہتا تھا۔ اب وہی آکر اسے پوچھتے کہ تیری نوکرانی کہاں ہے؟ تو وہ کہتا ہے وہ سامنے میرے گھر کی ملکہ بیٹھی ہے اب میری زندگی بہت پرسکون ہے...!!! end
وہ یہ سوچ ہی رہا تھا اور اندر اندر خوش بھی تھا‘ اتنے میں ایک آدمی بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ جلدی گھر چلو تمہاری بیوی کی آخری سانسیں ہیں اور وہ بار بار تمہارا نام لے رہی ہے ‘جب یہ ظالم خاوند گھر پہنچا تو بیوی سامنے پڑی تھی منہ سے جھاگ بہہ رہی زندگی موت کی جنگ لڑ رہی تھی‘ جب یہ قریب گیا تو بیوی جس میں اٹھنے کی سکت تک نہیں تھی اٹھی اور اس کے پاؤں میں پڑکر گڑ گڑاکر کہنے لگی کہ مجھے معاف کردینا کہ میں آپ کے قابل نہ بن سکی۔ قصور سارا میرا ہے میں آپ کی خدمت بھی نہ کر سکی اور اس کی طرف ٹکر ٹکر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ اس کی یہ تابعداری‘ فرمانبرداری اور سچی محبت اور خلوص کو دیکھ کر اس آدمی کی آنکھیں کھل گئیں۔ بس جیسے ہی اللہ نے اس کے دل کی آنکھیں کھولیں
اس کو مارنے کی طرح طرح کی ترکیبیں دریافت کرنے لگا۔ آخر ایک ترکیب پر اتفاق رائے ہوا کہ مٹھائی بنوائی جائے اور اس میں زہر ملا کر بیوی کو کھلا دیا جائے اس طرح اس کا کام تمام ہوجائے گا۔ خاوند بیوی کے پاس وہ زہر آلود مٹھائی لایا اور بڑی محبت سے کہنے لگا اسے کھا لو۔ بیوی اس کی زندگی میں پہلی دفعہ اتنی محبت دیکھ کر بہت خوش اور حیرت زدہ ہوئی اور اسے یہ بھی یقین ہوگیا تھا کہ اس مٹھائی میں زہر ہے‘خاوند نے کہا اسے کھا لو‘ بیوی نے تین دفعہ پوچھا کھالوں‘ اس ظالم نے بھی تینوں دفعہ یہی کہا کہ کھالو ‘ اس بے مثال اطاعت شعار بیوی نے اس زہر آلود مٹھائی کو خاوند کا حکم سمجھ کر کھالیا۔ خیر وہ ظالم خاوند باہر چلا گیا اور دوستوں کے ساتھ جاکر بیوی کی موت کی خوشی کے جشن منانے لگا اور اس کی موت کی خبر کے سننے کا انتظار کرنے لگا کہ ابھی اس کی موت کی خبر آئیگی۔
*👈 باوفا بیوی کا حیران کر دینے والا واقعہ __!!* ایک شخص کے گھر والوں نے اپنی پسند کی شادی کی وہ آدمی اس رشتے پر خوش نہیں تھا۔ پہلے دن سے ہی اس نے اپنی بیوی کو بیوی نہیں سمجھا‘ بلکہ صرف اسے اپنی نوکرانی سمجھتا تھا‘ کبھی اس نے اپنی بیوی سے ہنسی مذاق نہیں کیا‘ بس ہر وقت وہ اسے صرف رعب کے ساتھ کام بتادیتا اور بیوی بھی ایسی صابر تھی کہ حکم سنتے ہی اس کام میں لگ جاتی تھی اور صبر کرکے اپنے خدمت کے کاموں میں لگے رہنا اس کا شیوا تھا‘ بیوی کا ظالم خاوند تھوڑی سی غلطی اور کوتاہی پر اسے بہت مارتا اور پیٹتا تھا۔ بیوی کو بالکل یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کبھی کوئی بات اس سے پوچھ سکے۔ آخر کار شوہر نے سوچا کہ کیوں نہ اس سے ہمیشہ کیلئےجان چھڑالی جائے اب وہ اپنی وفادار بیوی کی موت کےلئے اپنے دوستوں کے پاس جا کر اس کو مارنے کی طرح طرح کی ترکیبیں
،وہ تو توبہ سے خوفزدہ رھتا ھے کیونکہ توبہ کی وجہ سے گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل ھو جاتے ھیِں " اولئک یبدل اللہ سیئآتھم حسنات " یہ وہ توبہ کرنے والے لوگ ھیں جن کی بدیوں کو اللہ نیکیوں مین تبدیل کر دیتا ھے ( الفرقان ) گویا یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ھے،،کبھی گناہ اسے سانپ کی طرح ڈس کر پاتال میں پہنچا دیتا ھے تو کبھی توبہ اسے پاتال سے نکال رب کے قدموں میں عرش کے سامنے لا سجدے مین ڈالتی ھے.... End
جب زھر کھانے سے نہیں شرماتے تو تریاق کھانے سے شرم کیسی ؟ جب اللہ معاف کرنے سے نہیں تھکتا تو تم توبہ کرنے سے کیوں تھک جاتے ھو،، لوگ عام طور پر کہتے ھیں کہ جی یہ بھی کوئی توبہ ھے کہ روز توبہ کر لی اور پھر گناہ کر لیا،،گویا رند کے رند رھے ھاتھ سے جنت نہ گئ والا معاملہ ھو گیا ! میں کہتا ھوں کہ یہ شیطانی سوچ ھے،وہ کسی نہ کسی طرح انسان کو توبہ سے روکنا چاھتا ھے، اگر یہ دو لفظ کہنا اتنا اسان ھوتا تو شیطان کب کا کہہ کے فارغ ھو گیا ھوتا ! یہ ھی تو اس سے ادا نہیں ھو پا رھے،یہی دو لفظ تو اس کے اور رب کے درمیان آڑ بن گئے ھیں،، بھلا وہ انسان کو انہیں ادا کرتے کیسے دیکھ سکتا ھے،، توبہ مومن کا سرپرائز weapon ھے،،شیطان نیکیوں سے نہیں ڈرتا ،اسے پتہ ھے میں ایک ھی گناہ ایسا کروا لوں گا کہ ساری نیکیاں ضائع ھو جائیں گی،،وہ تو توبہ سے خوفزدہ رھتا ھے
اور علاج میں دیر سے جان بھی چلی جاتی ھے - میں نے کہا ارے میاں یہ تو بہت خطرناک پودا ھے،حکومت کو اس کے گرد یا تو باڑ لگانی چاھئے یا پھر کوئی تحریری وارننگ اس کے ساتھ کھڑی کرنی چاھئے! وہ کہنے لگا مولانا یہاں کے لوگوں کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں، اجنبی اس کا شکار ھو جاتے ھیں، پھر وہ اٹھا اور بہت احتیاط سے اس پودے کی جڑ کو کھودا اور ایک ایک جڑ نما چیز نکال کے لایا ،کہنے لگا مولانا ایسے ھر پودے کے ساتھ ھی نیچے قدرت نے اس کا علاج بھی رکھا ،،آپ اس پانی سے بھری جڑ کو جونہی چبا کر چوستے ھیں،،اس پودے کا زھر اسی لمحے neutralize ھو جاتا ھے،اور یوں وہ صرف عام کانٹا رہ جاتا ھے،، ابھی میں نے یہ جڑ نکال لی ھے چند گھنٹوں بعد ویسی ھی تریاق سے بھری جڑ پھر تیار ھو جائے گی ! اللہ نے جہاں گناہ کا پرکشش پودا اگایا ھے وھیں اس کے پڑوس میں توبہ کا تریاق بھی رکھا ھے،
گناہ اور معافی... مفتی تقی عثمانی صاحب اپنی یاد داشتوں میں لکھتے ھیں کہ ساؤتھ افریقہ کے دورے کے دوران ھم ایک ٹرین میں سفر کر رھے تھے جو دورانِ سفر خراب ھو گئ، تمام پسینجر ٹرین سے اتر کر باھر بیٹھ گئے جن میں ھم بھی شامل تھے، وھاں بیٹھے بیٹھے میری نظر ایک بہت ھی خوبصورت پودے پر پڑی جس پر انتہائی پرکشش پھول لگا ھوا تھا،، میں بے ساختہ اس پھول کو توڑنے لپکا مگر میرے میزبان نے تقریباً چیختے ھوئے مجھے للکارا مولانا، مولانا اس کے پاس مت جایئے،، میں اس کی اس سنجیدہ وارننگ پر ٹھٹک کر رک گیا اور پوچھا بھائی کیا ھوا؟ کیا یہ کسی کی ذاتی ملکیت ھیں؟ کہنے لگے مولانا اس پھول کے ساتھ ھی اس کا ھم رنگ کانٹا ھوتا ھے جو سانپ کے زہر کا سا اثر رکھتا ھے،، ادھر وہ آپ کو چبھا اور ادھر آپ کا خون گاڑھا ھونا اور جمنا شروع کر دیتا ھے،جس سے انتہائی اذیت ھوتی ھے
تمہارے سودے کا طریقہ پکے بیوپاریوں والا ہے ۔ تم نے جنت کمانے کا طریقہ بڑا مضبوط چنا ہے ۔ مجھے امید ہے تمہارا سودا کامیاب رہے گا۔ اس کا پتہ تمہارے باپ کی چہرے کی خوشی دے رہی ہے ۔ جب ماں باپ راضی ہوں جائیں تو جنت کمانی کون سا اوکھا کم اے ؟ او پتر ہمارے پیارے نبی ؐ کا فرمان ہے "کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے اور اس کی چابی باپ کی رضا میں ہے " میں نے مسکرا کے ابا جی کو جپھی ڈال دی کہ مبادا میری جنت کوئی مجھ سے چھین نہ لے کیا آپ میں سے کوئی ایسے سودے کی کوشش کر رہا جانے انجانے میں ؟؟؟ End
ابا کی دوکان کے ساتھ ایک مولوی صاحب کی سبزی کی دوکان تھی تو ابا جی ان کے پاس دعا سلام کے لیئے رک گئے ۔ مولوی صاحب کی نظر ان کی دو عینکوں پر پڑی تو بولے آج تو دو دو عینکیں ملک صاحب ۔ اباجی ہنس کے بتانے لگے ۔ یہ جب بھی باہر سے چھٹی آتا ہے میری عینک انھیں دنوں خراب ہو جاتی اور یہ بدلوا دیتا ہے ۔ مولوی صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور بولے ۔ مطلب جنتاں دے سودے ہو رہے نے ۔ میں نے نہ سمجھنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھا ۔ میرا سوالیہ انداز باھنپتے ہوئے وہ بولے ۔ آپ ہر سال ابا کی عینکیں بدلوا کر جنت کے سودے کی کوشش میں ہو۔ میں روزانہ کسی غریب کو ایک سیب کھلا کر اس کی کوشش کرتا ہوں ۔ اس بازار میں ہر بندہ جانے انجانے میں اس کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ صورت جو بھی ہو ۔
جنت کا سودا اباجی آج پھر ٹوٹی ہوئی عینک کے ساتھ اخبار پڑھنے میں مصروف تھے ۔ میں جو دوکان پر پہنچا تو یہ منظر دیکھ کر جھنجھلا گیا۔ اباجی ۔ روز آپ سے کہتا ہوں کہ اپنی عینک بدل لیں آپ میری بات ہی نہیں مانتے ۔ ابھی چلیں میرے ساتھ آپ کی عینک بدلوا کر لاتے ہیں ۔ اباجی بولے یار پچھلی دفعہ توں آیا سی تے اے لئی سی ۔ فر دل ای نہیں کیتا انھوں بدلن دا ۔ چل چلدی آن بدلن ابا جی اور میں عینک ساز کے پاس پہنچے اور نئی عینک لی ۔ جانے ابا کے ذہن میں کیا آیا انھوں نے عینک ساز سے بولا۔ پرانی عینک وی ٹھیک کر کے دو پتر۔ عینک ساز نے پرانی عینک کے بھی شیشے وغیرہ صاف کر کے ۔ فریم تبدیل کر کے ابا جی کو پکڑا دیا ۔ ابا جی نے نئی عینک آنکھوں پر چڑھا لی اور پرانی سامنے والی جیب میں ڈال دی ۔ اور گپیں لگاتے اباجی اور میں واپس ابا کی دوکان کی طرف چل پڑے