کسی نے خواب دکھائے تھے زندگی کے ہمیں
کسی کے ساتھ ہمارا بھی رابطہ ہوا تھا
یہ خال و خد بھی ہمارے یونہی نہیں بگڑے
ہمارے ساتھ محبت کا حادثہ ہوا تھا..!
مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیرؔ
پردہ سا کوئی میرے ترے درمیاں تو ہے
مرشد،
حالات بتا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
موت جوانی میں ہوگی۔۔۔۔۔
یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے"
یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
کسے کیا خبر ہے کہاں ٹوٹ جائیں
محبت کے دریا میں تنکے وفا کے
نہ جانے یہ کس موڑ پر ڈوب جائیں
عجب دل کی بستی عجب دل کی وادی
ہر اک موڑ موسم نئی خواہشوں کا
لگائے ہیں ہم نے بھی سپنوں کے پودے
مگر کیا بھروسہ یہاں بارشوں کا
مرادوں کی منزل کے سپنوں میں کھوئے
محبت کی راہوں پہ ہم چل پڑے تھے
ذرا دور چل کے جب آنکھیں کھلیں تو
کڑی دھوپ میں ہم اکیلے کھڑے تھے
جنہیں دل سے چاہا جنہیں دل سے پوجا
نظر آرہے ہیں وہی اجنبی سے
روایت ہے شاید یہ صدیوں پرانی
شکایت نہیں ہے کوئی زندگی سے
اور کیسی دلیل دوں تجھ کو؟
رنگ چہرے کا جل گیا سارا۔۔۔
کچھ پنچھی جھنڈ میں اڑتے ہوں
، اور رستہ بھی کچھ مشکل ہو
، کچھ دور افق پہ منزل ہو
،اک پنچھی گھائل ہو جائے
، اور بےدم ہو کر گر جائے
،تو رشتے ناتے پیارے سب
،کب اس کی خاطر رکتے ہیں
، اس دنیا کی ہے ریت یہی
، جو اڑتے رہو تو ساتھ بہت
!!! ...جو رک جاؤ تو تنہا ہو
زندگی منہ بنائے پھرتی ہے
جیسے حالات میرے بس میں ہیں
تم کچھ تو نبھا جاتے، آخر کو محبت تھی
ہم نے تو عقیدت میں، لہجہ بھی نہیں بدلا ...

بعض اوقات انسان چلتا پھرتا، ہنستا کھیلتا، اچانک کسی کے دل میں مر جاتا ھے موت کا یہ روپ ظاہری موت سے زیادہ دردناک اور بھیانک ہوتا ھے🍂
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
مَیں نے تو ایک بات کی اُس نے کمال کر دیا
میں نے کہا بھائی یہ چلغوزے کا کیا ریٹ ہے ۔
کہنے لگا :
8000 روپے کلو
میں نے اِدھر اُدھر دیکھا کوئی نہیں تھا ۔
میں نے کہا : دس روپے کے دے دو ۔۔۔
اس نے میری طرف غصے سے دیکھا اور مگر بولا کچھ نا ۔
پھر ایک چلغوزہ اٹھا کر مجھے پکڑانے لگا ۔
میں نے کہا : شاپر میں ڈال دو ۔۔۔
اس نے اب کی بار کھا جانے والی نظروں سے دیکھا مگر غصہ دکھایا نہیں۔ پھر شاپر دیکر بولا : ہور کجھ ؟؟؟
میں نے کہا : شاپر ڈبل کردو ۔۔۔
وہ اپنی دوکان چھوڑ کر آج تک مجھے ڈھونڈ رہا ہے
کتنے سادہ ہیں فقیروں کے عقیدے مرشد
دیکھ لینے کو ملاقات سمجھ لیتے ہیں...!!!
اُسے کوزہ گری کا شوق ٹھہرا
مجھے کرنا پڑی پھر ذات مٹی
🏵️

لفظوں نے ضرور کہا تھا الوداع،
مگر میرے لہجے نے ہاتھ جوڑے تھے۔۔
دشمنِ جاں کو مات کر لیجے
چار دن احتیاط کر لیجے
اپنے گھر کے حسیں مکینوں کو
اپنی کل کائنات کر لیجے
رحم خود پر اگر نہیں آتا
اپنے بچوں کے ساتھ کر لیجے
یہ کوئی قید ہے کہ گھر بیٹھے
جس سے جی چاہے بات کر لیجے
دل ملا لیجئے اجازت ہے
دور لیکن یہ ہاتھ کر لیجے
فکر اپنی ہر ایک سے پہلے
کام ہے واہیات ، کر لیجے
آج موقع ہے مال و دولت کو
اپنی راہِ نجات کر لیجے
یہ حفاظت بھی اک عبادت ہے
جس قدر ہے بساط کر لیجے
اُسے یہ ڈر کہ ستارے نہ گفتگو سُن لیں
مجھے یہ فکر کہ سورج نکلنے والا ہے

گلہ نا مہربانی کا تو سب سے سن لیا تم نے
تمہاری مہربانی کی شکایت ہم بھی رکھتے ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain