چار دن آنکھ ___ میں نمی ہوگی 🥀
مر بھی جائیں تو کیا کمی ہوگی 💔🚬✌️
@Zoq
اب تم مجھ کو پانے کی تدبیر کرو
اب میں تم کو کھونے پر آمادہ ہوں🖤🥀
@Zoq
#یہ کون مجھ کو ادھورا بنا کے چھوڑ گیا💔
پلٹ کے میرا مصّور کبھی آیا نہیں😿
جنہیں دعاؤں میں مانگا گیا ہو
انہیں بھول جانا ممکن نہیں ہوتا💯🙂🖤
گاڑی کا وہ میکینک کام کرتے کرتے اٹھا اس نے پنکچر چیک کرنے والے ٹب سے ہاتھ گیلے کیے اور ویسے ہی جا کر کھانا کھانا شروع کر دیا -
میں نے اس سے کہا کہ الله کے بندے اس طرح گندے ہاتھوں سے کھانا کھاؤ گے تو بیمار پڑ جاؤ گے - ہزاروں جراثیم تمہارے پیٹ میں چلے جائینگے ، کیا تم نے کبھی اس طرح کی باتیں ڈیٹول یا صابن کے اشتہار میں نہیں دیکھیں ،
تو اس نے جواب دیا کہ " صاحب جب ہم ہاتھوں پر پہلا کلمہ
پڑھ کر پانی ڈالتے ہیں تو سارے جراثیم خود بہ خود مر جاتے ہیں اور جب بسم للہ پڑھ کر روٹی کا لقمہ توڑتے ہیں تو جراثیموں کی جگہ ہمارے پیٹ میں برکت اور صحت داخل ہو جاتی ہے -
مجھے اس مکینک کی بات نے ہلا کر رکھ دیا یہ تو اس کا توکل تھا جو اسے بیمار نہیں ہونے دیتا تھا - میں اس سے اب بھی ملتا ہوں - اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ مجھ سے زیادہ صحت مند ہے -
امام اعظم نے فرمایا۔’’میں نے دونوں دفعہ دل میں دیکھا۔ معلوم ہوا کہ دل پر خوشی یا ناخوشی کا اثر نہیں ہوا۔
دل نے کہا اللہ تعالیٰ کا مال تھا۔
دوسری مرتبہ بھی دل نے کہا اللہ تعالیٰ کا مال ہے۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا تو نقصان ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو نفع ہو گیا۔ میں نے اس بات پر شکر کیا کہ دینے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے ، لینے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے۔
میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ راضی برضا ہوں اس لئے دونوں مرتبہ میں نے شکر ادا کیا ہے۔‘‘
راضی برضاend
راضی برضا
حصہ اول
امام ابوحنیفہؒ کپڑے کے بڑے سوداگر تھے۔ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا۔ ’’سمندر میں جہاز ڈوب گیا ہے اور کروڑوں کا نقصان ہو گیا ہے۔‘‘
امام ابو حنیفہؒ چند سیکنڈ خاموش رہے اور کہا۔ ’’یا اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے۔‘‘
کچھ عرصہ بعد خبر آئی جو جہاز ڈوبا تھا وہ امام اعظم کا نہیں بلکہ دوسرے سوداگر کا تھا۔ امام اعظم کا جہاز ساحل پر لگ گیا ہے اور بہت نفع ہوا ہے۔ سیکرٹری نے خوشی خوشی اطلاع دی۔
امام اعظم نے کہا۔ ’’یا اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے۔‘‘
سیکرٹری نے پوچھا۔ ’’جہاز ڈوبنے کی خبر پر شکر کرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘
امام اعظم نے فرمایا۔’’میں نے دونوں دفعہ دل میں دیکھا۔ معلوم ہوا کہ دل پر خوشی یا ناخوشی کا اثر نہیں ہوا۔
دل نے کہا اللہ تعالیٰ کا مال تھا۔
دوسری مرتبہ بھی دل نے کہا اللہ تعالیٰ کا مال ہے۔
T.b.c
مرد نے فورا جواب دیا کہ ہمیں سفید پسند ہے
پاس بیٹھی بیوی نے برا سا منہ بناتے ہوئے اپنے خاوند کو ٹوکا اور اونچی آواز میں بولی۔ نہیں۔۔ نہیں۔۔ ہم کالی لینگے، میں نے دیکھی ہوئی ہے، بہت اچھی گائے ہے اور اس کے ماتھے پہ سفید نشان بھی ہے.
گاما آرام سے اٹھا، تھیلے سے ایک مرغی نکالی، عورت کو پکڑائی اور اگلے گھر کو چل دیا۔
گاما بتاتا ہے کہ سارے گاؤں میں اسے ہر گھر میں مرغی ہی دینی پڑی
End
چوہدری کے بیٹے کی شادی تھی چوہدری صاحب نے ایک انوکھا فیصلہ کیا کہ پورے گاؤں کو اس خوشی میں شامل کیا جائے اس لئے چوہدری نے اعلان کروایا کہ بیٹے کی شادی کی خوشی میں گاؤں کے ہر گھر کو ایک جانور تحفے میں دیا جائے گا۔
جس گھر میں مرد کا راج ہوگا وہاں ایک گائے اور جس گھر میں عورت کا راج ہوگا وہاں ایک مرغی دی جائے گی۔
گامے کو جانوروں کی ترسیل کا کام سونپ دیا گیا۔
پہلے ہی گھر میں گاما دونوں میاں بیوی کو سامنے بٹھا کر پوچھتا ہے, گھر میں پردھان منتری کون ہے؟ یعنی گھر کے فیصلے کون کرتا ہے
مرد بولا : مَیں
گامے نے جواب دیا کہ جناب چوہدری کے تمام جانور کسی نا کسی کے ہوگئے ہیں اب صرف 3 گائے باقی بچی ہیں
ایک کالی، ایک پیلی اور ایک سفید۔ جو تمھیں پسند ہے وہ بتا دو,
مرد نے فورا جواب دیا کہ ہمیں سفید پسند ہے
پاس بیٹھی بیوی نے برا سا
یہ بڈھا تو پاگل ہو گیا ہے ۔ اس عمر میں کون اسے کرائے پر ٹیکسی دے گا ۔ ہم تو کمانے آئے تھے ۔ یی آدھی قیمت پر ٹیکسی بیچ رہا تھا ۔ ہمیں دگنا منافع تھا ۔ اب ہم ستر گنا منافع کمائیں گے ۔ پیسے نہیں تو نہ سہی ، ایک نیکی ہی سہی "
وہ پیسے میز پر رکھتے ہوئے اٹھے ۔
" ڈاکٹر صاحب ! اور ضرورت پڑے تو ہمیں اس نمبر پر کال کر دینا ۔ " اپنا کارڈ ڈاکٹر کو دیتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکل گئے ۔ ٹیکسی والا زار و قطار روئے جا رہا تھا ۔
" بابو ! اللہ کو میری ٹیکسی پسند نہیں آئی ۔ پیسے والے نیکی لے گئے ۔ میں غریب پھر خالی ہاتھ رہ گیا....
Aik story complete krne ke liye 4 post karni pari..😞😞😞
" میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں ۔ مگر کوئی رشتہ ضرور ہے جو مجھے اسکی زندگی اپنے روزگار سے زیادہ اہم لگی ہے ۔ ٹیکسی کا کیا ہے ، میں کرائے پہ لیکر چلا لوں گا ۔ اگر یہ مر گئی تو یہ بچے بھی جیتے جی مر جائیں گے ۔ قیامت کے روز اللہ کو کیا منہ دکھاوں گا کہ مجھے ایک انسان کی زندگی سے زیادہ اپنی ٹیکسی عزیز تھی "
ساتھ آنے والے پیسے گن رہے تھے اور ساری کہانی بھی سن رہے تھے ۔
" آپ اپنے پیسے واپس رکھ لیں ، اسکی ٹیکسی اسی کے پاس رہنے دیں ۔ علاج کے پیسے میں ادا کر دیتا ہوں "
نوجوان بولا ۔
" نہیں بابو ! سودا ہو گیا ہے ۔ ہم ٹیکسی بھی نہیں لے جارہے اور پیسے بھی دے رہے ہیں ۔ ٹیکسی کے لئے نہیں علاج کے لئے "
دونوں شخص یک زبان بولے ۔
" یہ بڈھا تو پاگل ہو گیا ہے ۔ اس عمر میں کون اسے کرائے پر ٹیکسی دے گا ۔ ہم تو کمانے آئے تھے ۔
T
B.c
۔ ڈاکٹر نے پیسوں کیطرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا ۔
" بابا جی ! یہ بہت تھوڑے پیسے ہیں ۔ ڈھیر سارے پیسے چاہئیں " وہ بے بسی میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ کبھی آسمان کیطرف دیکھتا کبھی دیواروں کیطرف ۔ اچانک ایک چمک سی اسکے چہرے پر عیاں ہوئی ۔
" ڈاکٹر صاحب ! آپ اسکی جان بچائیں ۔ یہ میری گاڑی کے کاغذات ضمانت ہیں ۔ میں ابھی پیسے لیکر آتا ہوں "
وہ چلا گیا ۔ ڈاکٹر نے ابتدائی طبی امداد شروع کر دی ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دو لوگوں کے ساتھ واپس آیا ۔
" ڈاکٹر صاحب! میں نے ٹیکسی بیچ دی ہے ۔ آپ پیسوں کی فکر نہ کریں " اس نے گاڑی کے کاغذات ساتھ آنے والوں کو دیتے ہوئے کہا ۔ صورت حال کو بھانپتے ہوئے ، قریب کھڑا ایک خوش باش نوجوان پوچھنے لگا ۔
" کیا لگتی ہیں یہ خاتون آپکی "
" میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں ۔ مگر کوئی رشتہ ضرور ہے
T.b.c
" پاگل ٹیکسی ڈرائیور "
وہ ایک خستہ حال بیہوش عورت کو لیکر ہسپتال کی ایمرجینسی وارڈ میں داخل ہوا ۔ جسکے ساتھ دو نو عمر بچے تھے ۔ شکل و شباہت سے بھکاری لگ رہے تھے ۔ ڈاکٹر نے مریضہ کو دیکھا اور بولا ۔
" اس بی بی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔ اگر فوری امداد نہ دی گئی تو یہ مر جائیگی ۔ فوری علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے " سنتے ہی بچوں نے چیخنا شروع کر دیا ۔ وہ شخص کبھی ڈاکٹر کو دیکھتا ، کبھی مریضہ کو اور کبھی بچوں کو ۔
" کیا لگتی ہیں یہ آپ کی ؟ " ڈاکٹر نے اس شخص کو تذبذب میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
" کچھ نہیں ۔ میں ٹیکسی چلاتا ہوں ۔ اسے سڑک پہ لیٹے دیکھا ، اسکے پاس بیٹھے یہ دونوں بچے رو رہے تھے ۔ میں ہمدردی میں یہاں لے آیا ہوں ۔ میری جیب جو ہے ، دے دیتا ہوں " اس نے جیب سے جمع پونجی نکال کر میز پر رکھ دی ۔ ڈاکٹر نے پیسوں کیطرف دیکھا tbc
یہ قدیم مسلم تاجروں کی روایت تھی کہ وہ صبح دکان کھولنے کے ساتھ ایک چھوٹی سی کرسی دکان کے باہر رکھتے تھے جوں ہی پہلا گاہک آتا دکاندار کرسی اس جگہ سے اٹھاتا اور دکان کے اندر رکھ دیتا تھا.
لیکن جب دوسرا گاہک آتا دکاندار اپنی دکان سے باہر نکل کر بازار پر اک نظر ڈالتا جس دکان کے باہر کرسی پڑی ہوتی وہ گاہک سے کہتا کہ تمہاری ضرورت کی چیز اس دکان سے ملے
گی،میں صبح کا آغاز کرچکا ہوں.
کرسی کا دکان کے باہر رکھنا اس بات کی نشانی ہوتی تھی کہ ابھی تک اس دکاندار نے آغاز نہیں کیا ہے.
یہ مسلم تاجروں کا اخلاق اور محبت تھی نتیجتا ان پر برکتوں کا نزول ہوتا تھا.
تیرے وعدے اگر وفا ہوتے مرشد 😒
مجازی ہی سہی ہم تیرے خدا ہوتے 💔
ہم تب خدا سے رجوع کرتے ہیں جب دنیا ہمیں رد کر چکی ہوتی ہے"-🖤💯
صبر اتنا رکھو عشق بے حد نہ بنے
خدا محبوب بن جائے محبوب خدا نہ بنے 🙃🔥
ہمارے ہاں مسجدوں سے زیادہ ہسپتالوں میں خدا کو سچے دل سے یاد کیا جاتا ہے💔🔥
’’ہم سب کے اندر اداسی ہے ‘ ایڈم ۔تنہائی کا ایک خلا ء جو.....جو مغرب ڈھلتے ہی ہمیں نگلنے کو منہ کھولے بیٹھا ہوتا ہے ۔ سارے دن کے کام کاج کے بعد.....اس وقت ہمیں ’انسانوں‘ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہ اداسی کا وقت ہوتا ہے ۔ خوف اور تنہائی کا ۔ایک شخص اس وقت کو گزارنے کے لیے ہمیں کافی نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنے اردگرد بہت سے دوست اور رشتے اکٹھے کرنے چاہئیں تاکہ وہ ہر شام ہماری مدد کیا کریں۔‘‘
’’ہاں۔اسی لیے ہر شام کو ہم اپنی دنیا میں اپنے اپنے سیل فون لے کر سب سے کٹ کے بیٹھ جاتے تھے۔لوگ کہتے ہیں ‘ ہم اپنے فونز کے عادی ہو گئے ہیں۔ مگر اب مجھے لگتا ہے چے تالیہ کہ ہم ان لوگوں کے عادی ہو جاتے ہیں جو فون کے ذریعے ہم سے جڑے ہوتے ہیں۔‘‘
#Haalim_Novel
صبر ہر بار اختیار کیا
ہم سے ہوتا نہیں ہزار کیا
عادتاً تم نے کر دیئے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں
رک کر اپنا ہی انتظار کیا
پھر نہ مانگیں گے زندگی یارب
یہ گنہ ہم نے ایک بار کیا
@ Zoq
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain