Damadam.pk
aasi-1's posts | Damadam

aasi-1's posts:

aasi-1
 

25سال دی عمر وی پوری نئی
میتھوں یار ضعیفی چھا گئی اے
رنگ بدل گیا میرے بالاں دا
تیری سک اندروں کھا گئی اے
میرا ٹرن تے مرن محال ہویا
اے جا روگ حیاتی لا گئی اے
ادوں سکھ دی قدر حامی بریسی
جدوں موت بیمار نوں آ گئی اے

aasi-1
 

میں اور مجھ میں بھی میں ہی ہوں

aasi-1
 

دل چاہتا ہے دوست ایک ہی ہو مگر ایسا
جس کو اپنی حالت بتانے کے لیے الفاظ کا سہارا نا لینا پڑے

aasi-1
 

انسان دکھ میں اکیلا ہوتا ہے
لیکن خوشیوں میں بے شمار لوگ آ جاتے ہیں

aasi-1
 

وہ مہرباں ہو جاۓ اور پوچھے کیا چاہیے
کہوں گا جیسے تو پہلے تھا ہو بہو چاہیے
آگ لگاتا ہے سلگاتا ہے تیرا بدلا ہوا لہجہ
جو سیرِ آب کرے روح کو وہ گفتگو چاہیے....

aasi-1
 

میرا اعتبار ٹوٹ گیا ہے
اب مجھے دوست بھی دوست نہیں لگتے

aasi-1
 

جو سبق زندگی پڑھاتی ہے وہ کتابوں میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوتا

aasi-1
 

لوگ کہتے ہیں موسم بدل جاتے ہیں
میں کہتے ہوں لوگ بدل جاتے ہیں
آپ کسی زندگی میں کب خاص سے عام ہو جاتے ہیں یہ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا

aasi-1
 

میں دوسری محبت کر تو لوں لیکن
پہلی محبت کا انجام یاد آ جاتا ہے

aasi-1
 

نا آنے والوں سے کہو
میں نے رستے دیکھنے چھوڑ دیے ہیں

aasi-1
 

وہ بھی ملتا جو گلے سے تو خوشی عید کی تھی
کوئی رہ رہ کے نصیر آج بہت یاد آیا
نصیر الدین نصیر شاہ

aasi-1
 

اے خدا میں مایوس تو نہیں ہوں
لیکن بتا میرے دن کب بدلیں گے

aasi-1
 

اشکوں سے داغ دھونے کو دل کرتا ہے
نجانے کیوں آج رونے کو دل کرتا ہے
برسوں مانگا تھا دعاؤں میں جس کو
اس کی یاد بھلا نے کو دل کرتا ہے

aasi-1
 

دنیا میں سب سے زیادہ درد امید دیتی ہے
اور مجھے اب تمہارے لوٹ آنے کی امید ہے

aasi-1
 

عید تو لوٹ آئی ہے مگر
بچھڑے ہوئے لوگ کب لوٹیں گے

aasi-1
 

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

aasi-1
 

میں خاموش رہنا چاہتا ہوں اتنا خاموش کہ لوگ میری آواز سننے کو ترس جائیں
میں چاہتا ہوں کہ میں صدیوں تک خاموش رہوں

aasi-1
 

سنو
اک غزل بھیجو نہ
اپنی آواز میں
ہو جس میں ہجر کا درد
کچھ وصل کے خواب
کچھ ہلکی ہلکی سرگوشیاں
کچھ ٹوٹے پھوٹے خواب
کچھ قافیے ہوں نئے وعدوں کے
کچھ ردیف بے قرار ۔۔۔
سنو اک غزل بھیجو نا۔۔۔۔۔
___🌼🖤

aasi-1
 

نجانے کون سی بدعا تعاقب میں ہے
سکون شکل دکھتا ہے چلا جاتا ہے

aasi-1
 

یہ زخم تو بھر جائے گا کسی موسم میں شاید
پر عاصم اب میرے اندھے اعتبار کا کیا ہو گا