کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے وہ وادیاں وہ فضائیں کہ ہم ملے تھے جہاں میری وفا کا وہیں پر مزار آج بھی ہے نا جانے دیکھ کے کیوں اُنکو یہ ہو احساس کہ میرے دل پہ اُنہیں اختیار آج بھی ہے وہ پیار جس کے لیؑے ہم نے چھوڑ دی دنیا وفا کی راہ میں گھائل وہ پیار آج بھی ہے یقیں نہیں ہے مگر آج بھی یہ لگتا ہے میری تلاش میں شائد بہار آج بھی ہے نا پوچھ کتنے محبت کے زخم کھائے ہیں کہ جن کو سوچ کے دل سوگوار آج بھی ہے حسرت جے پوری
اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا وہ چاہتا ، تو میرے ساتھ چل بھی سکتا تھا وہ شخص ! تو نے جسے چھوڑنے میں جلدی کی تیرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا وہ جلد باز خفا ہو کے چل دیا، ورنہ تنازعات کا کچھ حل نکل بھی سکتا تھا آتا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دیا ، ورنہ میری دعا ہے، وہ پتھر پگھل بھی سکتا تھا تمام عمر ترامنتظر رہا محسن یہ اور بات کہ ، رستہ بدل بھی سکتا تھا (محسن نقوی)