جیسے کلائی میں کوئی نگینہ جڑا ملتا ہے ذات سے میری یوں وہ شخص جڑا ملتا ہے رکھ لیتا ہے وہ میرے دکھ یوں اپنے پاس ،، جیسے کوئی خزانہ کسی کو پڑا ملتا ہے وہ اک شخص جو میرا دوست نہیں ہے پھر بھی ہر مشکل میں میرے ساتھ کھڑا ملتا ہے کون ہے یہ جو مجھ کو پڑھتا ہے میرے بعد میرا کوئی صفحہ ہر روز مڑا ملتا ہے میرے عکس میں بھی وہ نظر آتا ہے عاصم رنگ آئینہ پر بھی اس کا چڑھا ملتا ہے
میری ایک تازہ لکھی ہوئی غزل سمجھے تھے میں نے یار منافق نکلے ہیں کہ کہانی میں کچھ کردار منافق نکلے ہیں میری یہ آستیں اب بھی سلامت ہے لیکن میری بستی سے دو چار منافق نکلے ہیں دشمن سے تو کوئی بھی گلہ نہیں ہے لیکن دکھ یہ ہے کہ پہرے دار منافق نکلے ہیں وہ سر دیوار تو میرے دوست تھے لیکن جب دیکھا جا کے پس دیوار منافق نکلے ہیں ہم نے تو خون پلایا ہے ان کو عاصم یہ لوگ مگر ہر بار منافق نکلے ہیں
دیمک لگے دروازے جدائی کا عذاب سہتے بدن دیر تک کب رکتے ہیں دیمک لگے دروازے جلد اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں جدائی کا عذاب سہتے بدن جلد آسودہ خاک ہو جاتے ہیں دیمک دروازوں کو چاٹ جاتی ہے جدائی بدنوں پر خزاں بن کر اترتی ہے دروازے، بدن سب خاک ہو جاتے ہیں ۔ معین الدین
اُسے کہنا جہاں ہم نے بچھڑتے وقت لکھا تھا کوئی رُت ہو، کوئی موسم , محبت مر نہیں سکتی وہاں پر لکھ گیا کوئی تعلق خواہ کیسا ہو، بالآخر ٹوٹ جاتا ہے طبیعت بھر ہی جاتی ہے کوئی مانے نہ مانے، پر محبّت مر ہی جاتی ہے