تو خوب تھا تو مجھے، نیند سے جگایا کیوں
تو وہم تھا تو مرے، ساتھ ساتھ کیوں نہ چلا
اسے کہنا ۔۔۔۔۔۔
اگر دو، چار دن
ہفتہ، مہینہ
میرا کوئی لفظ_____
میرا کوئی شعر_____
نظر تم کو نہ آ پاۓ
کوئی دکھ سکھ کا لمحہ
کوئی شکوہ شکایت بھی
آپ اپنی موت ہی مر جاۓ
تو مجھ کو جان کر مردہ
مجھے اک بات بتلاؤ
خوشی کتنی مناؤ گے
غم کتنا مناؤ گے🙂🥀
میں نے بیزار کیا سب کو اور لکھ لیا منہ پر
جانے والوں کو الوداع آنے والوں سے معذرت🖤🥀
خدا قبول کرے بد دعائے عشق ..... کہ میں
اگر تمہارا نہیں تو کسی کا بھی نہ رهوں .......
موت آنی ہی ہے اک روز تو ایسے آئے😢
علی اکبر ع کے مصائب پہ
کلیجہ پھٹ جائے💔
قافلہ رہ گیا اک دشتِ بلا میں پیاسا
جنؑ کی میراث تھی کوثر انہیں پانی نہ ملا
اتنا حیران تھا میں سامنے پا کر اس کو
ایک پل کے لیے اس کو بھی لگا “میں تو گیا”
دے تو دوں تجھ کو مرا مصرعہ دل لیکن یار
تو اگر اس کو نبھا ہی نہ سکا ، میں تو گیا
نامعلوم
یہ لوگ پرندے مارتے ہیں
مِرے یار یہ بستی ٹھیک نہیں !!
رات بھی تو گزار لی میں نے
زندگی بھی گزار لوں گا میں
تہذیب حافی🙏🖤
اور کتنی حیات باقی ہے
اور کتنا ذلیل ہونا ہے
افکار علوی
ہماری پھینکی ہوئی ڈھال کو بنا کر ڈھال
حریف سامنے آیا تو اُس پہ رحم آیا
افکار علوی
۔
یہ میرے بعد ، دریچے سے لگ کے روئے گا.
ابھی تو دُکھ کو ، میری آنکھ کا سہارا ہے
اس شخص کے نفاق کو جانو گے کیسے
جو روتا تو دلفریب ہے، ہنستا اداس ہے.
میرے ہاتھ سے تیرے ہاتھ تک ۔۔
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ ۔۔۔
کئی موسموں میں بدل گیا ۔۔۔۔
اُسے ناپتے اُسے کاٹتے۔۔۔۔
میرا سارا وقت نکل گیا۔۔۔
امجد اسلام امجد
میں کھجوروں بھرے صحراؤں میں دیکھا گیا ہوں
تخت کے بعد ترے پاؤں میں دیکھا گیا ہوں
مسجدوں اور مزاروں میں مرے چرچے ہیں
مندروں اور کلیساؤں میں دیکھا گیا ہوں
دفن ہوتی ہوئی جھیلوں میں ٹھکانے ہیں مرے
خشک ہوتے ہوئے دریاؤں میں دیکھا گیا ہوں
لمحہ بھر کو مرے سر پر کوئی بادل آیا
کہنے والوں نے کہا چھاؤں میں دیکھا گیا ہوں
پھر مجھے خود بھی خبر ہو نہ سکی میں ہوں کہاں
آخری بار ترے گاؤں میں دیکھا گیا ہوں۔۔۔۔
وصل کے تین سو تیرہ میں کہیں ہوں موجود
ہجر کے معرکہ آراؤں میں دیکھا گیا ہوں
ندیم بھابھہ
بے بسی کی یہ آخری حد ہے
میری اولاد آپ پر جائے
اس کے چہرے پہ آج اداسی تھی
ہائے۔۔۔ افکار علوی مر جائے
اور ایک یہ دکھ بھی ہم کو اندر سے کھا رہا ہے
کہ ہم نہ ہونگے مگر اداسی کھڑی رہے گی
ہمارے مرنے پہ کوئی جی بھر کے کھائے گا ، اور
ہمارے دکھ میں کسی کی روٹی پڑی رہے گی
افکار علوی
ﺗﻢ ﺑﮍﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻟﻮﭨﮯ ﮨﻮ
ﺩﺭﺩ ﮐﺎﻓﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﺏ ﺗﻮ
ﺍﺏ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺮﮨﻢ ﮐﯽ
ﺯﺧﻢ ﻧﺎﺳﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﺏ ﺗﻮ
💔
مقامِ بے حسی پر لائی بے بسی کہ مجھے
کوئی بھی دکھ نہیں باقی ، نہ انتظار ترا
ترے ہی دھوکے سے دنیا سمجھ میں آئی ہے
لہذا شکریہ اے شخص بے شمار ترا....
میرے ہاتھ سے تیرے ہاتھ تک ۔۔
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ ۔۔۔
کئی موسموں میں بدل گیا ۔۔۔۔
اُسے ناپتے اُسے کاٹتے۔۔۔۔
میرا سارا وقت نکل گیا۔۔۔
امجد اسلام امجد
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain