میں اپنی اذیت الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔ کیوں کہ اذیت پڑھی نہیں جا سکتی صرف محسوس کی جا سکتی ہے اور یہ وہی محسوس کر سکتا جس پر بیت رہی ہوتی ہے ۔ اور میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ میں روز تھوڑا تھوڑا کر کے مر رہا ہوں ۔
ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا میں تو اُس زخم ہی کو بھول گیا ذات در ذات ہم سفر رہ کر اجنبی، اجنبی کو بھول گیا عہدِ وابستگی گزار کے میں وجہِ وابستگی کو بھول گیا سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر ایک میں ہر کسی کو بھول گیا سب سے پُر امن واقعہ یہ ہے آدمی، آدمی کو بھول گیا قہقہہ مارتے ہی دیوانہ ہر غمِ زندگی کو بھول گیا اُن سے وعدہ تو کر لیا لیکن اپنی کم فرصتی کو بھول گیا اس نے گویا مُجھی کو یاد رکھا میں بھی گویا اُسی کو بھول گیا یعنی تُم وہ ہو،۔ واقعی ؟ حد ہے میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا اب تو ہر بات یاد رہتی ہے غالباً میں کسی کو بھول گیا
بہت ہی یاد آتے ہو ذرا ملنے چلے آؤ مجھے کچھ تم سے کہنا ہے زیادہ وقت نہیں لوں گا ذرا سی بات کرنی ہے نہ دکھ اپنے سنانے ہیں نہ کوئی فریاد کرنی ہے نہ یہ معلوم کرنا ہے کہ اب حالات کیسے ہیں تمہارے ہمسفر تھے جو تمہارے ساتھ کیسے ہیں نہ یہ معلوم کرنا ہے تیرے دن رات کیسے ہیں مجھے بس اتنا کہنا ہے مجهے تم یاد آتے ہو بہت ہی یاد آتے ہو.
بہت ہی یاد آتے ہو کاش یہ دل دھڑکنا چھوڑ دے یہ سانس رک جائے یہ دم نکل جائے یہ روح تڑپ رہی ہے تمہارے پاس آنے کے لیے لیکن تمہارے جاتے وقت میں تم نے جو کہا وہ الفاظ بہت رلاتے ہے گونجتے رہتے ہیں ________ الفاظ میرے کانوں میں تم تو آرام سے کہہ گئے تھے مجھ سے اب بات نہ کرنا