مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں کہ میں یاد تم کو نہ آ سکا مگر اتنی بات ضرور ہے کہ تمہیں نہ دل سے بُھلا سکا دلِ عشق بار کو کیا کہوں یہ نہ کچھ بھی کر کے دِکھا سکا نہ اِدھر کی آگ بُجھا سکا نہ اُدھر ہی آگ لگا سکا میں وفورِ درد سے چُور تھا اُدھر اُن کو بھی تو غرور تھا کہوں کیا کہ کس کا قصور تھا نہ وہ آ سکے نہ میں جا سکا یہ وفا کی راہ میں دیکھیئے میرے آرزُؤں کی ہستگی میں کسی کے قدموں میں گِر کے بھی نہ کسی کو اپنا بنا سکا
یادوں کے قافلے سے جدا نہیں ہوں اکیلا ضرور ہوں مگر تنہا نہیں ہوں آپ کیوں اتنا تجسّس رکھتے ہیں مجھ میں آپ سے کہا تو ہے آپ کا مسئلہ نہیں ہوں غلط بتایا گیا ہے آپ کو میرے بارے میں جتنا آپ سمجھتے ہیں اتنا بھی برا نہیں ہوں سو مسائل تھے سفر کے سو الجھ گیا میں رکنا تھا مجھ کو جہاں وہاں رکا نہیں ہوں اس نے ایک بھی نہ سنی میں لاکھ کہتا رہا میرا دور گزر گیا ہے اس دور کا نہیں ہوں یوں حیرت سے تو نا دیکھ تو مجھ کو میں بھی انسان ہوں کوئی تماشا نہیں ہوں بروز حشر جو ہوا کلام تو خدا سے پوچھوں گا اتنے امتحان کیوں کیا میں تیرا بندا نہیں ہوں
نہ رنجشوں کی کارستانی نہ عداوتوں میں مارا گیا چہرا بتا رہا ہے کہ یہ محبتوں میں مارا گیا وہ دشمنوں کے مقابل تو سرخرو ٹھہرا لیکن واپس جو پلٹا تو آپنے ہی خیموں میں مارا گیا لاش پڑی تھی اس کی حدود دشمناں میں وہ شخص جو اپنوں ہی دوستوں میں مارا گیا مرکوز رہے جس سے تمام قصے وفاؤں کہ وہ خود تو بے وفائی کے سلسلوں میں مارا گیا میں ابھی زندہ ہوں یار تو ماتم نہ بنا وہ تو میرا کردار تھا جو قصوں میں مارا گیا
یادوں سے نکالے اور ذہنوں سے اتاررے ہوئے ہیں ہم لوگ حالات کے ہاتھوں سے مارے ہوئے ہیں یار تو ہی بتا زمانے سے لڑیں تو کس امید پر لڑیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ مقدر ہی ہارے ہوئے ہیں کوئی جو ہم سے پوچھے آ کر حال زار ہمارا تو کیسے اس کو بتائیں کہ محبت میں خسارے ہوئے ہیں بے عنوان سی اس کہانی کا یہی اختتام ٹھہرا عاصی~ ہم اپنے بھی ہو نہ سکے اور نہ تمہارے ہوے ہیں
وحشت دیکھ کر ڈر گئے مدتوں بعد جو گھر گئے ہمیں دیکھ کر ہنستے تھے جو وہ لوگ اب کدھر گئے پھول جتنے بھی تھے چمن میں ان آندھیوں میں بکھر گئے ضبط اپنی جگہ لیکن میں کیا کروں آج میرے دوست مر گئے
اک رات میں اس قدر بدل گیا سیاہ بختی میں میرا مقدر بدل گیا شاید شدائی تھا وہ شخص دشت کا جو میرے صحرا سے سمندر بدل گیا وہ جھیل وہ پربت وہ پری کچھ نہ تھا آنکھ کھلی تو سامنے منظر بدل گیا سفر تو بہت خوش گوار گزرا لیکن عین منزل پر پہنچ کر ہمسفر بدل گیا
قصے الفت کے سنا کر وقت گزر گیا مجھ کو باتوں میں الجھا کر وقت گزر گیا میں جانتا ہوں وہ لوٹ کر نہیں آئے گا لیکن انتظار میں مجھے کو بٹھا کر وقت گزر گیا تعبیر ملی ہی نہیں عمر بھر جن کی مجھ کو خواب ایسے ایسے دکھا کر وقت گزر گیا میں معصوم تھا اس کی باتوں میں آ گیا میں تیرا ہی تو ہوں یہ بتا کر وقت گزر گیا