حسرتیں تمام ہو جائیں
لوٹ آؤ اس پہلے کے شام ہو جائے
بہت یاد آتے ہو
اک بار لوٹ آؤ
چاروں طرف تنہائی ہے ایک اداسی چھائی ہے
سوچ کہ اس کی باتیں آنکھ میری بھر آئی ہے
بے چینی ہے سانسوں میں درد اٹھے سینے میں
بچھڑ کر اپنے دلبر سے مزا نہ آئے جینے میں
مجھ کو کتنا ستاتی ہے وہ لڑکی بہت یاد آتی ہے
کبھی مجھ کو ہنسائے کبھی مجھ کو رولائے
مجھے کتنا رولاتی ہے
وہ لڑکی بہت یاد آتی ہے

نہ جھانکو آج دریچوں سے دروازہ کھلا ہے ، آ جاؤ
کبھی استقبال جو کرتا تھا ، بیمار پڑا ہے ، آ جاؤ
ماتھے پہ پسینہ یادوں کا ، دل میں ہے بلا کی بے چینی
دیدار کی حسرت آنکھوں میں ، ہونٹوں پہ دعا ہے ، آ جاؤ
ہاتھوں کی لکیریں نظروں کو کچھ بدلی بدلی لگتی ہیں
کچھ رشتہ بُرج ستاروں کا تبدیل ہوا ہے ، آ جاؤ
ہاں تم نے کہا تھا جب جانا ، کوئی چیز نشانی لے جانا
سانسوں کا سفینہ ساحل پہ تیار کھڑا ہے ، آ جاؤ
کافر ہو جو آپ کے وعدے پر شاکر یقین نہ کرے
احساسِ کے ہاں امیدوں کا دم ٹوٹ رہا ہے آ جاؤ
Sachi

آج دیکھا میں نے خمار محبت کا
میں اکیلا ہی نہیں تھا بیمار محبت کا
میں خالی ہاتھ تھا سو خرید نہ سکا
شہر بھر میں ہوتا رہا کاروبار محبت کا
جذبوں میں صداقت ہو تو نظر آتی ہے
لفظوں سے ممکن کہاں اظہار محبت کا
یوں سر بازار تو نہ گنواہ خامیاں میری
کچھ بھرم ہی رکھ لے یار محبت کا
نزاع تک تو پہنچ آیا ہوں عاصی~
اور کہاں تک کرتا اعتبار محبت کا
اس سے کہو کہ حال اچھا نہیں ہے بیمار کا
اس سے کہو کہ مجھ سے رابط کرے
جو یاد ہے مجھ کو
وہ بھول گیا ہے مجھ کو
جب مجبور ہو جاؤں گا
تم سے بہت دور ہو جاؤں گا
تب تم میری تربت پر اک چراغ جلا دینا
تم رونے نہیں بلکے میری میت پر مسکرا دینا
اک امید پر ہے قائم زندگی
وہ امید بھی اک دھوکا ہے
یہ وفا تو اک کتابی لفظ ہے
یہاں ضرورت نے سب کو روکا ہے
تم اس مسافر کا دکھ سمجھتے ہو
جسے رستہ خود ہی چھوڑ دے
آج سب کچھ ہے کل کچھ بھی نہیں ہے
اس محبت کا حل کچھ بھی نہیں ہے
میں یہ نہیں کہتا کہ خواب مت دیکھو
لیکن یہ خواہشوں کا جنگل کچھ بھی نہیں ہے
وہ باتیں وفا کی کرتے ہیں ہزارہا لیکن
اس پر عمل کچھ بھی نہیں ہے
سورج چاند ستارے ہجر وصل محبت
سب ادھورے ہیں مکمل کچھ بھی نہیں ہے
یہ کار محبت بھی اک اذیت ہے
اور اس کا پھل کچھ بھی نہیں ہے
وہ بے خبر سا بنا رہتا ہے میرے حال سے
حالانکہ اس آنکھ سے اوجھل کچھ بھی نہیں ہے
Meri aik nazam last part
خدا جانے وہ کس حال میں ہو گی لیکن
میرے ذہن سے وہ آخری ملاقات نہیں نکلی
آج بھی میں اس کو یاد کرتا ہوں
ہر شعر ہر غزل ہر نظم میں اسے پکارتا ہوں
وہ جو سرگوشی بھی سن لیتی تھی میری
اب میری پکار بھی سنتی نہیں ہے
آج میں سمجھا ہوں نہ ہونے کی اذیت کو
لیکن یہ سمجھنے میں بہت دیر کر دی میں نے
وہ مجھ بن ادھوری تھی لیکن
میں بھی اس کے بغیر ادھورا ہوں
وہ تب ادھوری تھی لیکن
میں تب بھی ادھورا تھا اب بھی ادھورا ہوں
Meri aik nazam part 2
سن کر میری یہ باتیں وہ
فقط مسکرا ہی پائی تھی
اس کی اس مسکراہٹ میں
اک انتہا کی اذیت تھی
اور پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد
اس نے مجھ سے کہا
کہ دیکھنا مدتوں بعد
تم مجھ کو پکارو گے لیکن
میں تب تمہاری پکار پر بھی نہ پلٹوں گی
جب تم نہ ہونے کی اذیت کو سمجھو گے
تب تم سمجھو گے بے بسی میری
آج میں ادھوری ہوں تم بن لیکن
تب تم بھی ادھورے ہو گے مجھ بن
کافی عرصہ بیت گیا ہے اور
پھر کبھی ہم ملے نہیں ہیں
Meri aik nazam
Part 1
آخری ملاقات
جب ہم آخری بار ملے تھے
تب وہ پھولوں جیسی تھی
کوئل جیسی اس کی آواز تھی
وہ تتلی جیسی پیاری تھی
اس کی آنکھوں میں کچھ بے چینی تھی
اس کے لبوں پر کوئی فریاد تھی
تب اس نے کہا کہ ہم
اب بچھڑے تو پھر نہ ملیں گے کبھی
اور اس نے یہ بھی کہا
یہ کڑی جدائی مجھ سے سہی نہیں جائے گی
تب میں نے ہنستے ہوئے کہا
کچھ بھی نہیں ہوتا پاگل
چند دنوں کی بات ہے
کون کس کو سدا یاد رکھتا ہے
یہ کہنے کی باتیں ہوتی ہیں
کون کس کے لیے مرتا ہے
اندر کی اذیت کو لفظوں سے بیان نہیں کیا جا سکتا
میری اذیت سے واقف میں ہوں یا میرا خدا ہے
عید کے تین دن کیسے گزرے ۔۔ تین دنوں میں کتنا رویا ہوں ۔ کیوں رویا ہوں یہ میں بیان نہیں کر سکتا۔۔۔
ضبط اپنا میں کھو دونگا جو کسی نے کہا عید مبارک
دیکھو اب میں رو دونگا جو کسی نے کہا عید مبارک
عید مبارک میں کس نوں اکھاں جس عید تے پئی جدائی
عید اوناں جناں دید سجن دی بنا دید عید نا کائی
عید سعید شہید جے کیتی اجڑی کر دے چنائی
یار فرید لکھاں عیداں تھیسن جدوں ملسن وچھڑے ماہی
میں لفظوں سے بیان اذیت نہیں کر سکتا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain