مر مر کے تہ ملے سی
انے وی کہ گلے سی
سولی تے لٹکیاں دا اعتبار وی نہ آیا
آسی زندگی گنواہ لی تینوں پیار وی نہ ایا
قصے الفت کے سنا کر وقت گزر گیا
مجھ کو باتوں میں الجھا کر وقت گزر گیا
میں جانتا ہوں وہ لوٹ کر نہیں آئے گا لیکن
انتظار میں مجھے کو بٹھا کر وقت گزر گیا
تعبیر ملی ہی نہیں عمر بھر جن کی مجھ کو
خواب ایسے ایسے دکھا کر وقت گزر گیا
میں معصوم تھا اس کی باتوں میں آ گیا
میں تیرا ہی تو ہوں یہ بتا کر وقت گزر گیا
میں اک شخص کے جانے پر نہیں رویا مرشد
وہ شخص نہیں میری دنیا تھا مرشدِ
اک فریاد کر رہا ہوں
کسی کو یاد کر رہا ہوں
لوٹ آؤ کے میں تم بن ادھورا ہوں
اک شخص کی خاطر مجھ کو
لاہور پیارا لگتا ہے
آج دل بہت اداس ہے
آج کوئی دل سے دعا دو
میری شاعری کا عنوان تم ہو
میرا خیال وہم و گمان تم ہو
elaaf
اور میرے پاس بس خاموشی ہے
حسرتیں تمام ہو جائیں
لوٹ آؤ اس پہلے کے شام ہو جائے
بہت یاد آتے ہو
اک بار لوٹ آؤ
چاروں طرف تنہائی ہے ایک اداسی چھائی ہے
سوچ کہ اس کی باتیں آنکھ میری بھر آئی ہے
بے چینی ہے سانسوں میں درد اٹھے سینے میں
بچھڑ کر اپنے دلبر سے مزا نہ آئے جینے میں
مجھ کو کتنا ستاتی ہے وہ لڑکی بہت یاد آتی ہے
کبھی مجھ کو ہنسائے کبھی مجھ کو رولائے
مجھے کتنا رولاتی ہے
وہ لڑکی بہت یاد آتی ہے

نہ جھانکو آج دریچوں سے دروازہ کھلا ہے ، آ جاؤ
کبھی استقبال جو کرتا تھا ، بیمار پڑا ہے ، آ جاؤ
ماتھے پہ پسینہ یادوں کا ، دل میں ہے بلا کی بے چینی
دیدار کی حسرت آنکھوں میں ، ہونٹوں پہ دعا ہے ، آ جاؤ
ہاتھوں کی لکیریں نظروں کو کچھ بدلی بدلی لگتی ہیں
کچھ رشتہ بُرج ستاروں کا تبدیل ہوا ہے ، آ جاؤ
ہاں تم نے کہا تھا جب جانا ، کوئی چیز نشانی لے جانا
سانسوں کا سفینہ ساحل پہ تیار کھڑا ہے ، آ جاؤ
کافر ہو جو آپ کے وعدے پر شاکر یقین نہ کرے
احساسِ کے ہاں امیدوں کا دم ٹوٹ رہا ہے آ جاؤ
Sachi

آج دیکھا میں نے خمار محبت کا
میں اکیلا ہی نہیں تھا بیمار محبت کا
میں خالی ہاتھ تھا سو خرید نہ سکا
شہر بھر میں ہوتا رہا کاروبار محبت کا
جذبوں میں صداقت ہو تو نظر آتی ہے
لفظوں سے ممکن کہاں اظہار محبت کا
یوں سر بازار تو نہ گنواہ خامیاں میری
کچھ بھرم ہی رکھ لے یار محبت کا
نزاع تک تو پہنچ آیا ہوں عاصی~
اور کہاں تک کرتا اعتبار محبت کا
اس سے کہو کہ حال اچھا نہیں ہے بیمار کا
اس سے کہو کہ مجھ سے رابط کرے
جو یاد ہے مجھ کو
وہ بھول گیا ہے مجھ کو
جب مجبور ہو جاؤں گا
تم سے بہت دور ہو جاؤں گا
تب تم میری تربت پر اک چراغ جلا دینا
تم رونے نہیں بلکے میری میت پر مسکرا دینا
اک امید پر ہے قائم زندگی
وہ امید بھی اک دھوکا ہے
یہ وفا تو اک کتابی لفظ ہے
یہاں ضرورت نے سب کو روکا ہے
تم اس مسافر کا دکھ سمجھتے ہو
جسے رستہ خود ہی چھوڑ دے
آج سب کچھ ہے کل کچھ بھی نہیں ہے
اس محبت کا حل کچھ بھی نہیں ہے
میں یہ نہیں کہتا کہ خواب مت دیکھو
لیکن یہ خواہشوں کا جنگل کچھ بھی نہیں ہے
وہ باتیں وفا کی کرتے ہیں ہزارہا لیکن
اس پر عمل کچھ بھی نہیں ہے
سورج چاند ستارے ہجر وصل محبت
سب ادھورے ہیں مکمل کچھ بھی نہیں ہے
یہ کار محبت بھی اک اذیت ہے
اور اس کا پھل کچھ بھی نہیں ہے
وہ بے خبر سا بنا رہتا ہے میرے حال سے
حالانکہ اس آنکھ سے اوجھل کچھ بھی نہیں ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain