Meri aik nazam last part
خدا جانے وہ کس حال میں ہو گی لیکن
میرے ذہن سے وہ آخری ملاقات نہیں نکلی
آج بھی میں اس کو یاد کرتا ہوں
ہر شعر ہر غزل ہر نظم میں اسے پکارتا ہوں
وہ جو سرگوشی بھی سن لیتی تھی میری
اب میری پکار بھی سنتی نہیں ہے
آج میں سمجھا ہوں نہ ہونے کی اذیت کو
لیکن یہ سمجھنے میں بہت دیر کر دی میں نے
وہ مجھ بن ادھوری تھی لیکن
میں بھی اس کے بغیر ادھورا ہوں
وہ تب ادھوری تھی لیکن
میں تب بھی ادھورا تھا اب بھی ادھورا ہوں
Meri aik nazam part 2
سن کر میری یہ باتیں وہ
فقط مسکرا ہی پائی تھی
اس کی اس مسکراہٹ میں
اک انتہا کی اذیت تھی
اور پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد
اس نے مجھ سے کہا
کہ دیکھنا مدتوں بعد
تم مجھ کو پکارو گے لیکن
میں تب تمہاری پکار پر بھی نہ پلٹوں گی
جب تم نہ ہونے کی اذیت کو سمجھو گے
تب تم سمجھو گے بے بسی میری
آج میں ادھوری ہوں تم بن لیکن
تب تم بھی ادھورے ہو گے مجھ بن
کافی عرصہ بیت گیا ہے اور
پھر کبھی ہم ملے نہیں ہیں
Meri aik nazam
Part 1
آخری ملاقات
جب ہم آخری بار ملے تھے
تب وہ پھولوں جیسی تھی
کوئل جیسی اس کی آواز تھی
وہ تتلی جیسی پیاری تھی
اس کی آنکھوں میں کچھ بے چینی تھی
اس کے لبوں پر کوئی فریاد تھی
تب اس نے کہا کہ ہم
اب بچھڑے تو پھر نہ ملیں گے کبھی
اور اس نے یہ بھی کہا
یہ کڑی جدائی مجھ سے سہی نہیں جائے گی
تب میں نے ہنستے ہوئے کہا
کچھ بھی نہیں ہوتا پاگل
چند دنوں کی بات ہے
کون کس کو سدا یاد رکھتا ہے
یہ کہنے کی باتیں ہوتی ہیں
کون کس کے لیے مرتا ہے
اندر کی اذیت کو لفظوں سے بیان نہیں کیا جا سکتا
میری اذیت سے واقف میں ہوں یا میرا خدا ہے
عید کے تین دن کیسے گزرے ۔۔ تین دنوں میں کتنا رویا ہوں ۔ کیوں رویا ہوں یہ میں بیان نہیں کر سکتا۔۔۔
ضبط اپنا میں کھو دونگا جو کسی نے کہا عید مبارک
دیکھو اب میں رو دونگا جو کسی نے کہا عید مبارک
عید مبارک میں کس نوں اکھاں جس عید تے پئی جدائی
عید اوناں جناں دید سجن دی بنا دید عید نا کائی
عید سعید شہید جے کیتی اجڑی کر دے چنائی
یار فرید لکھاں عیداں تھیسن جدوں ملسن وچھڑے ماہی
میں لفظوں سے بیان اذیت نہیں کر سکتا
عید پر وہ آئیں گے مجھے تھا یقیں
عید گزر گئی مگر وہ آئے ہی نہیں
مکاں بوسیدہ تھا سو چھوڑ گئے ہیں
وہ جو بستے تھے میرے دل میں مکیں
اک شخص سے منسلک تھے میرے تہوار سارے
وہ جب جب بات کرتا تھا میری عید ہوتی تھی
I really miss you



زباں حسینی ہو کردار حسینی ہو تو
ہر ہاتھ میں جب تلوار حسینی ہو تو
مٹ جائے گا فتنہ باطل کا دیکھنا تم
آگر حق کی للکار حسینی ہو تو
دشمن بھی دیکھے گا احترام سے تجھے
سر پر تمہارے گر دستار حسینی ہو تو
صدائے حق بلند ہوتی ہے ہر طرف سے
جینے کا گر استوار حسینی ہو تو
یہ دنیا تیرے پاؤں کی خاک ہو جائے گی
پہلے تو خود میرے یار حسینی ہو تو
تمہارے بعد
ہمیں سارا جہان میسر کر دیا گیا تھا
مگر تب تک____ہم آنکھوں پہ ہاتھ رکھ چکے تھے
کئی منزلوں کی جستجو
ہمیں عطا کردی گئی
مگر تب تک____ہم پانے کی خواہش ترک کر چکے تھے
اپنی موج میں بہتا تھا بس روتا رہتا تھا
کسی کچھ نہ کہتا تھا بس روتا رہتا تھا
اس دنیا سے بے خبر وہ خود میں مگن
نجانے کیا غم سہتا تھا بس روتا رہتا تھا
کچھ اس طرح سے آزمایا گیا مجھے
تیرے نام لے لے کر ستایا گیا مجھے
میں جانتا ہوں یہ فریب ہے حیات کا
اک ٹوٹا ہوا خواب دکھایا گیا مجھے
پہلے سمیٹا گیا میری کرچیوں کو
پھر تمناؤں کی آگ میں جلایا گیا مجھے
پھر پلٹا ہی نہیں میں کبھی اس طرف
تیری محفل سے ایسے اٹھایا گیا مجھے
بروزِ حشر یہ شکوہ کروں گا میں خدا سے
اک شخص کے لیے اتنا کیوں ترسایا گیا مجھے
نہ پوچھ کیسے جھیلے ہیں تیرے ستم اے زندگی
تھوڑا ہنسا ہوں اور زیادہ رولایا گیا مجھے
پھر لگا یہ فتویٰ کہ مرنا حرام ہے عاصی~
پہلے مقام خود کشی تک لایا گیا مجھے
چہرے پے کھلتی ہے ہنسی بھی
اور درد بھی اٹھتا ہے سینے سے
اک تصویر تھی بجھی سی وہاں
کل شب میں ملا تھا آئینے سے
سمجھ آتی نہیں ہے کے ہوا کیا
میں بدلا بدلا سا ہوں کچھ مہینے سے
زندگی سے محبت بھی بہت ہے لیکن
دل بھی بیزار سا رہتا ہے جینے سے
میری باتوں کی تلخی پر نہ جا میرے حالات پڑھ
تجھے کیا بتاؤں کس کس کا ستایا ہوا ہوں میں
میں میسر نہیں ہوں ایک جیسا ہر کسی کو
تو ویسا مت ڈھونڈ جیسا بتایا ہوا ہوں میں
کوئی اور کردار رکھ تو میرا اپنی کہانی میں
اس محبت سے تو پہلے ہی اکتایا ہوا ہوں میں
کبھی کبھی کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن وہ سننے والا دستیاب ہی نہیں ہوتا جس سے ہم سب کچھ کہہ سکیں
منتظر بیٹھا کوئی سوچ رہا ہے کب سے
کاش لاہور سے افطار کی دعوت آ جائے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain