زہر کی بوتل، نیند کی گولی، پنکھا رسی سب کچھ ہے....! موت کا جذبہ، زیست سے نفرت اور اداسی سب کچھ ہے... میرے بعد زمیں والوں سے میرا خالق نپٹے گا... جس کے پاس، عقیم، جہنم، آگ اور مٹی سب کچھ ہے..
آج اکتوبر کی چودہ ہوگئی ہے آہستہ آہستہ شامیں گہری ہوتی جائيں گی نا جانے کیوں جیسے جیسے خزاں کا موسم قریب آتا ہمارے اندر بھی اداسی گہری ہوتی جاتی ہیں درختوں سے پتے گرتے دیکھتے ہیں تو نظروں سے گرے ہوۓ لوگ یاد آ جاتے ہیں باقی لوگوں کی طرح بہار،نہیں پسند مجھے میرا پسندیدہ موسم تو خزاں ہی خزاں ہے جب ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے شام ہوتے ہی گھر کی چھت سے خالی درختوں اور پر سکون ماحول کو دیکھنا بہت سکون دیتا پھر وہی شام وہی دل میں اداسی کی صلیب پھر وہی یاد کہ چلمن میں بھلاۓ ہوۓ لوگ۔۔۔۔😢
درد دل تم کو سناؤں تو کیا ہو گا میں واپس لوٹ آؤں تو کیا ہو گا ویسے تو میں عادی ہوں ضبط غم شب ہجر میں اشک بہاؤں تو کیا ہو گا تلاش سکون میں پھرتا ہوں ادھر اُدھر لوٹ کر جو گھر جاؤں تو کیا ہو گا ~تم تو راضی ہو تقدیر کے فیصلے پر عاصی میں اب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاؤں تو کیا ہو گا