نہ جانے کیوں، نہ جانے کس بنا پر
اک احساسِ ندامت ہے جوانی
تیری چاہ ہمیشہ رہے اس میں،
میں رہوں نہ رہوں دل رہے نہ رہے،
موت نے آ کر____مجھے بچایا ہے
میری قبر کے کتبے پہ شکریہ لکھنا
زندگی سے بہت ہی بدظن ہیں
کاش! اک بار مر گئے ہوتے ،،،
وہ جو غصہ کرے تو کرنے دینا تم
یہ پیارے لوگ برہم اچھے لگتے ہیں
اجاڑ دے میرے دل کی دنیا سکوں کو میرے تباہ کردے
مگر میری التجا ہے تجھ سے ادھر بھی اپنی نگاہ کر دے
نفس نفس میں ہو یاد تیری قدم قدم پہ ہو ذکر تیرا
تجھی کو دیکھاکروں ہمیشہ کچھ ایسی مجھ پہ نگاہ کر دے
پاس نہیں ہوتا نظر مگر آتا ہے
تصور میں اک شخص اکثر آتا ہے
یوں ہاتھ اٹھانے سے تو کچھ نہیں ہو گا
خلوص نیت میں ہو تو دعا میں اثر آتا ہے
تہمت آوارگی نہ دو مجھ کو کے
کون ہے جو بے سبب در بدر آتا ہے
اس مٹی سے مجھے اس کی خوشبو آتی
مجھ سے ملنے کو وہ شخص ادھر آتا ہے
اتنے وحشت کیوں ہے اس دشت میں
کیا اس ویرانے میں قیس کا گھر آتا ہے
وہ اور ہی لوگ ہوں گے جنہیں منزل ملی
ہمارے حصے میں تو ہر بار سفر آتا ہے
ہونٹوں کی ہنسی کو سچ مان لیا جائے
یا آنکھوں کی اداسی کو سچ مان لیا جائے
تو ہی تو بتا دے مجهے ہمراز میرے
کہ اب کس زندگی کو سچ مان لیا جائے
جیئے بهی جاتے ہیں اور خود پر اختیار بهی
کیا زندگی کی بے بسی کو سچ مان لیا جائے
غم ہجر نے مارا ہے اسے اور تم کہتے ہو
اس نے کی ہے خودکشی سچ مان لیا جائے
تم چاہتے ہو کہ جلایا جائے گھر اپنا
اس سے نکلے گی روشنی سچ مان لیا جائے
تیرے ہجر میں مبتلا جنگ ہو گیا ہوں میں
اپنے آپ سے ہی تنگ ہو گیا ہوں میں
تیرے بدلنے سے میرے موسم بهی بدل گئے
ان بدلتی رتوں سے تو دنگ ہو گیا ہوں میں
پهر محبت کی تپش سے بهی موم نہ ہوا
آتش غم سے ایسا سنگ ہو گیا ہوں میں
شہر بھر کے لوگ مجهے دیکھتے ہیں عاصی~
اداسی کی تصویر میں ایسا رنگ ہو گیا ہوں میں
مرشد یہ میرے سر کی بلاٸیں نہیں گٸیں
مرشد عرش سے پار دعاٸیں نہیں گٸیں
بس اسی موڑ سے مڑنا تھا مجھے تیری طرف
ہاۓ کس جا پہ ضرورت نے مجھے گھیر لیا
وہ جو اِک شخص متاعِ دل و جان تھا، نہ رہا
اب بھلا کون میرے درد سنبھالے محسنؔ

وہ رُت ہے کہ ہر سانس عذابِ رگِ جاں ہے
اس پر بھی ستم یہ کہ جیئے بن نہ رہا جائے
میرا مسلک فقط اداسی ہے
قیس میں تیرے خاندان میں ہوں
کبھی کبھی اداسی کا سبب مجھے بھی معلوم نہیں ہوتا
میں روتا ہوں اس محبت کو
جو کبھی تھی ہی نہیں
Udass assi
