میں جب بھی سوچتا ہوں، کپکپا سا جاتا ہوں
حضورؐ آپ میرے واسطے بھی روئے تھے!
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
آنکھوں میں جیسے نامکمل سی نیندیں
چمک مار رہی ہیں،
حلقوں اور ازرق نے
آنکھوں کے گرد ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں،
سونے کی کوششیں جاری رہتی ہیں،
مگر
نیند ہے کہ کوسوں دور کھڑی ہےھین ھین کے
لیے آنکھیں ملاتی ہے، اوجھل ہو جاتی ہے،
دل دماغ آنکھیں سب ہارے بیٹھے ہیں،
المختصر کہ
ہمیشہ سو جانے کی تمنائیں کی جا رہی ہیں،،
مجھے یاد ہے اک دل دکھایا تھا میں نے
میں جانتا ہوں اک بددعا لگی ہے مجھے
پھر الفاظ دم توڑ گئے
جذبات بکھر گئے
دل مر گیا
ہم سدھر گئے
کیا کہا.......عشق جاودانی ہے!
آخری بار مل رہی ہو کیا
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
اگر آپ بدصورت ہیں تو بدصورت ہیں ! یہ اندرونی خوبصورتی والی بات بکواس ہے -- آپ ہر جگہ ایکسرے لے کر نہیں جاسکتے
وہ روٹھا ہوا ضرور تھا
لیکن اتنا کہ
ہمیں دیکھنا بھی گوار نہیں کیا
ایک سایہ مرا مسیحا تھا
کون جانے، وہ کون تھا، کیا تھا
جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا
بات تو دل شکن ہے پر، یارو!
عقل سچی تھی، عشق جھوٹا تھا
اپنے معیار تک نہ پہنچا میں
مجھ کو خود پر بڑا بھروسہ تھا
جسم کی صاف گوئی کے باوصف
روح نے کتنا جھوٹ بولا تھا !
اب تو جس طور بھی گزر جائے
کوئی اسرار زندگی سے نہیں
اس کے غم میں کیا سبھی کو معاف
کوئی شکوہ بھی اب کسی سے نہیں

کبھی کبھی بیزاریت اتنی بڑ جاتی ہے کہ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا حتیٰ کہ تمہاری یاد بھی
تم ایک شخص کے جانے پہ رو پڑے ہو .....!
ہمارا کوئی نہیں ہے! یہ ہنسی دیکھتے ہو ؟
بظاہر تو بہار ہے لیکن
اداسی اب بھی دسمبر والی ہے
تم پڑھتے تھے تو سکوں ہوتا تھا
اب درد لکھ کر لفظوں کو رسوا کرتا ہوں
بال بِکھرائے ٹوٹی قبروں پر
جب کوئی مہ جبین روتی ہے
مُجھ کو اکثر خیال آتا ہے
موت کِتنی حسین ہوتی ہے
تیرے بعد میں ہر کسی کا ہو گیا
تیرے بعد دکھوں نے مجھے بانٹ لیا
دکھ یہ نہیں کہ وہ یاد نہیں کرتا
دکھ یہ ہے کہ وہ یاد بھی نہیں آتا
بدل گئی ہے یہ زندگی اب سبھی نظارے بدل گئے ہیں
کہیں پہ موجیں بدل گئی ہیں کہیں کنارے بدل گئے ہیں
بدل گیا ہے اب اس کا لہجہ‘ اب اُس کی آنکھیں بدل گئی ہیں
وہ چاند چہرہ ہے اب بھی ویسا مرے ستارے بدل گئے ہیں
ملا ہوں اُس سے تو یوں لگا ہے کہ جیسے دونوں ہی اجنبی ہوں
کبھی جو مجھ کو عزیز جاں تھے‘ وہ طور سارے بدل گئے ہیں
کچھ اس لیے بھی میں سر جھکا کر پھر اُس کی نگری سے چل پڑاہوں
کہ جن پہ مجھ کو تھا ناز عاطفؔ وہ سب سہارے بدل گئے ہیں
بہت غنيمت ہیں ہم سے ملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے
وگرنہ اپنا تو شہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے
لڑنے کا نیا انداز اپنا لیا میں نے
تلوار پھینکی اور قلم اٹھا لیا میں نے
جب بھی ہوا کہیں ظلم نیا تو
جواب دینے کے بجائے سر جھکا لیا میں نے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain