کتنے نقاب اترتے ہیں اک چہرے سے
دل دھڑکتا ہے تو اٹھتی ہیں چیخیں _____
عشق نے باندھ کے مارا ہے خدا جانتا ہے___
آج موسم بالکل انسانوں کی طرح ہے ۔۔ تھوڑی دیر بعد بدل جاتا ہے ۔۔ کچھ دیر دھوپ کچھ دیر بارش اور کچھ دیر بادل رہتے ہیں ۔۔۔
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کر یاد آیا
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮉﯾﺴﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮉﯾﺴﻦ ﮐﯽ ﺍﯾﮑﺴﭙﺎﺋﺮﯼ ﮈﯾﭧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻣﻠﮯ، ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎ
ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ﺍﮔﺮ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻧﺎ ﻣﻠﮯ، ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﻣﺮﺽ ﺑﮍﮪ
ﭼﮑﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮑﺴﭙﺎﺋﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺗﻨﺪﺭﺳﺖ ﮨﻮ
ﭼﮑﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺟﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮏ ﮐﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﺘﺎ
ﮨﻮﮞ
ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﺁﺋﮯ
وفا خوبی میری تھی بارہا نہیں رہی
اب خود کو بھی میری تمنا نہیں رہی
میں خود بھی تو دیتا رہا فریب خود کو
تجھ سے ملا تو مجھے عادت وفا نہیں رہی
ہاتھ اٹھائے کب سے کھڑا ہوں تیرے در پر
لیکن لبوں پر میرے کوئی دعا نہیں رہی
اک عمر ہم نے رقص میں ساتھ گزاری ہے
اب وقت بدلا تو زندگی بھی آشنا نہیں رہی
اجنبی سی شام اور میں ہوں
امید بھی ناکام اور میں ہوں
اک طرف ہے ہجوم شہر منتظر
دوسری طرف تیرا نام اور میں ہوں
پارسا ہاتھ میں لیے پتھر کھڑے ہیں
محبت کا ہے الزام اور میں ہوں
اس پار ہیں راحتیں زندگی کی ساری
اس پار ہیں الجھنیں تمام اور میں ہوں
خوب سجی ہے یہاں بزم مہ عاصی~
یاد ٫ درد٫ دوا ، جام اور میں ہوں
سانسوں کی تھکن اتار کر بیٹھا ہوں
میں یہاں زندگی سے ہار کر بیٹھا ہوں
یوں ہی نہیں ہیں بگڑے خدوخال میرے
میں خواب سارے اپنے مار کر بیٹھا ہوں
تم جو رکھتے ہو شعور
تو سنو خاموشیاں میری
اداس اب میری طبیعت نہیں رہی۔۔
تم سے بھی اب کوئی شکایت نہیں رہی ۔۔
اب تو صرف رشتے کا بھرم نبھاتے ہم
اک بوسیدہ سا تعلق باقی مگر محبت نہیں رہی
کچھ میں بھی ہو گیا تمہاری یاد سے غافل
کچھ تمہیں بھی اب پہلے سی فرصت نہیں رہی
کیا کہا ایک اور فریب کھاوں میں ۔۔
نہیں اب مجھ کو عادت نہیں رہی ۔۔
سجدوں میں بھی کوئی اور یاد آتا ہے
اب نماز بھی تمہاری عبادت نہیں رہی ۔۔۔
اک خواب ہے جو میں جی رہا ہوں ۔۔۔
یعنی میری زندگی میں کوئی حقیقت نہیں رہی
ہاں میں پکارتا تو تم لوٹ ہی آتے شاید ۔۔
مگر مجھ میں ہی بولنے کی طاقت نہیں رہی ۔
میری سانسوں کی تھا تحریر جو عاصی~ ۔۔
وہی نام لکھنے کی اب اجازت نہیں رہی
وہ جو شہ رگ سے بھی قریب ہے نا
وہی سنتا نہیں ہے التجاء میری
مجھ سے پرہیز کیجیے بہت گنہگار ہوں
تبھی قبول ہوتی نہیں ہے دعا میری
یوں بے حال نہیں تھا میں
مجھ کو اداسی کھا گئی ہے
کبھی کبھی خاموشی اتنی گہری ہو جاتی ہے میرے اندر کے مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ زندہ ہوں بھی یا نہیں
کبھی کبھی خاموشی اذیت اور کبھی کبھی خاموشی نعمت لگتی ہے
خاموشیاں چیخ چیخ کر بتاتی ہیں
مجھ سے چھینے گئے ہیں الفاظ میرے
رات بارش کے ساتھ آندھی کی وجہ ادھر انٹرنیٹ بری طرح متاثر
مجھے ڈر لگتا ہے
اس دنیا سے
ان بادشاہوں سے
مجھے خوف آتا ہے
دنیا کے درندوں سے
سہما سا رہتا ہوں
ہمہ وقت ڈرتا ہوں
کونے سے چِپکا رہتا ہوں
لوگوں سے میں چھپتا ہوں
مجھے خوف آتا ہے دنیا سے
دنیا کے ان خداؤں سے
کہاں چھپ جاؤں میں
کنارہ کر لوں میں
بڑا خوف سا آتا ہے
وحشت سی ہوتی ہے


اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا
جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند
کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش
معصوم سے بچے کے خیالات کی مانند
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain