بدل گئی ہے یہ زندگی اب سبھی نظارے بدل گئے ہیں کہیں پہ موجیں بدل گئی ہیں کہیں کنارے بدل گئے ہیں بدل گیا ہے اب اس کا لہجہ‘ اب اُس کی آنکھیں بدل گئی ہیں وہ چاند چہرہ ہے اب بھی ویسا مرے ستارے بدل گئے ہیں ملا ہوں اُس سے تو یوں لگا ہے کہ جیسے دونوں ہی اجنبی ہوں کبھی جو مجھ کو عزیز جاں تھے‘ وہ طور سارے بدل گئے ہیں کچھ اس لیے بھی میں سر جھکا کر پھر اُس کی نگری سے چل پڑاہوں کہ جن پہ مجھ کو تھا ناز عاطفؔ وہ سب سہارے بدل گئے ہیں
اسے اپنے درد کی فکر تھی، جو میرا واقفِ حال تھا وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ جو خود سراپا سوال تھا وہ جو اس کے سامنے آگیا، وہی روشنی میں نہا گیا عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی، عجب اس کا رنگِ جمال تھا دمِ واپسی اسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی وہ ستارہ کیسے بکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مثال تھا وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا اُسے میری چپ نے رلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا، اور مجھے فقط اتنا وہ کہہ سکا جسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صرف وہم و خیال تھا.
وفا خوبی میری تھی بارہا نہیں رہی اب خود کو بھی میری تمنا نہیں رہی میں خود بھی تو دیتا رہا فریب خود کو تجھ سے ملا تو مجھے عادت وفا نہیں رہی ہاتھ اٹھائے کب سے کھڑا ہوں تیرے در پر لیکن لبوں پر میرے کوئی دعا نہیں رہی اک عمر ہم نے رقص میں ساتھ گزاری ہے اب وقت بدلا تو زندگی بھی آشنا نہیں رہی
بہرحال یہ آخری دکھ بھی گنوارہ کر لیا جائے کنارا کرنے والوں سے کیوں نا کنارا کر لیا جائے اک ہجر تیرا جو درپیش ہے سزا مجھے تا حیات سوچتا ہوں کہ تیرے بعد عشق دوبارہ کر لیا جائے