آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہو گیا ہوں جب سے میں تمہارا ہو گیا ہوں پہلے بہتا تھا موج دریا کی طرح اب سوکھ کے کنارا ہو گیا ہوں درد بانٹتے پھرتے ہیں الفاظ میرے نجانے کتنے لوگوں کا سہارا ہو گیا ہوں بگڑ چکا ہے میرا مزاج اس قدر اب تو میں شاید آوارہ ہو گیا ہوں آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہو گیا ہوں عاصی~ جب سے میں تمہارا ہو گیا ہوں
کسی کی تصویر آنکھ میں دھوئے جاتے ہیں اسی لیے تو ہم مسلسل روئے جاتے ہیں شاید کسی سے تو اگ آئے فصل گل تبھی تو ہم زمین میں اشک بوئے جاتے ہیں ایک ہم ہیں جو مدت سے جاگ رہے ہیں ایک میرے بخت ہیں جو سوئے جاتے ہیں اک خزانہ تھا تیری یادوں کا پاس میرے اب تو وہ بھی تسلسل سے کھوئے جاتے ہیں
خوشبو کے دیس میں جانے والا شخص کوئی اور ہو گا طوفانوں سے آنکھ ملانے والا شخص کوئی اور ہو گا میں تو افسردہ بیٹھا ہوں اپنے شکستہ حال پر وہ بات بات پر مسکرانے والا شخص کوئی اور ہو گا باشندگان بستی اندھیرے میں عمر گزار دیں گے ہوا کے مدمقابل چراغ جلانے والا شخص کوئی اور ہو گا اس بستی کا ہر شخص عادی ہے دل آزاری کا روتے ہوؤں کو ہنسانے والا شخص کوئی اور ہو گا خود بھٹکتے پھرتے ہیں ادھر ادھر رہبر یہاں خلعقت کو سیدھا رستہ دکھانے والا شخص کوئی اور ہو گا حیرت زدہ ہے ہر اک نقش تصویر کا تصورات کی تصویر بنانے والا شخص کوئی اور ہو گا ہم تھک چکے ہیں کشتیوں کو ~بناتے ہوئے عاصی وہ کناروں کو ملانے والا شخص کوئی اور ہو گا
یہ دکھاوے کی محبتیں اور دل میں عداوتیں مار ہی نہ ڈالیں مجھے کہیں تیری یہ سازشیں یہ درد یہ وحشت یہ ویرانی ہیں تحفے تیرے ہم کیسے بھول جائیں تیری یہ عنایتیں جو بھی دیا جی بھر کر دیا ہے مجھے تو نے ویسے بھی تھیں شہر بھر مشہور تیری سخاوتیں کس بات پر روٹھ کر ہوا جدا تو نے بتایا نہیں ویسے تو ہوتی رہتی تھیں اپنے درمیان رنجشیں کئی زندگیاں لگیں تھیں جن کو بنانے میں عاصی پل بھر میں جل کر خاک ہوئیں وہ ساری عمارتیں
میں کیا کروں کہ سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا کوئی سبب بھی ہے یا بے سبب اداسی ہے … عبث ہیں کوششیں راغبؔ مجھے ہنسانے کی کسی کے دَم سے دمک تھی سو اب اُداسی ہے