آج موسم بالکل انسانوں کی طرح ہے ۔۔ تھوڑی دیر بعد بدل جاتا ہے ۔۔ کچھ دیر دھوپ کچھ دیر بارش اور کچھ دیر بادل رہتے ہیں ۔۔۔ یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کر یاد آیا کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
وفا خوبی میری تھی بارہا نہیں رہی اب خود کو بھی میری تمنا نہیں رہی میں خود بھی تو دیتا رہا فریب خود کو تجھ سے ملا تو مجھے عادت وفا نہیں رہی ہاتھ اٹھائے کب سے کھڑا ہوں تیرے در پر لیکن لبوں پر میرے کوئی دعا نہیں رہی اک عمر ہم نے رقص میں ساتھ گزاری ہے اب وقت بدلا تو زندگی بھی آشنا نہیں رہی
اجنبی سی شام اور میں ہوں امید بھی ناکام اور میں ہوں اک طرف ہے ہجوم شہر منتظر دوسری طرف تیرا نام اور میں ہوں پارسا ہاتھ میں لیے پتھر کھڑے ہیں محبت کا ہے الزام اور میں ہوں اس پار ہیں راحتیں زندگی کی ساری اس پار ہیں الجھنیں تمام اور میں ہوں خوب سجی ہے یہاں بزم مہ عاصی~ یاد ٫ درد٫ دوا ، جام اور میں ہوں
اداس اب میری طبیعت نہیں رہی۔۔ تم سے بھی اب کوئی شکایت نہیں رہی ۔۔ اب تو صرف رشتے کا بھرم نبھاتے ہم اک بوسیدہ سا تعلق باقی مگر محبت نہیں رہی کچھ میں بھی ہو گیا تمہاری یاد سے غافل کچھ تمہیں بھی اب پہلے سی فرصت نہیں رہی کیا کہا ایک اور فریب کھاوں میں ۔۔ نہیں اب مجھ کو عادت نہیں رہی ۔۔ سجدوں میں بھی کوئی اور یاد آتا ہے اب نماز بھی تمہاری عبادت نہیں رہی ۔۔۔ اک خواب ہے جو میں جی رہا ہوں ۔۔۔ یعنی میری زندگی میں کوئی حقیقت نہیں رہی ہاں میں پکارتا تو تم لوٹ ہی آتے شاید ۔۔ مگر مجھ میں ہی بولنے کی طاقت نہیں رہی ۔ میری سانسوں کی تھا تحریر جو عاصی~ ۔۔ وہی نام لکھنے کی اب اجازت نہیں رہی