غم حیات کی تلخی کو پی کے اے ساقی
میں تیرے پاس نہ آٶں تو پھر کہاں جاٶں
میں کیا کروں کہ سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا
کوئی سبب بھی ہے یا بے سبب اداسی ہے
…
عبث ہیں کوششیں راغبؔ مجھے ہنسانے کی
کسی کے دَم سے دمک تھی سو اب اُداسی ہے
تباہ کر جائے گا تمہیں
حادثہ میری موت کا
آج کوئی ایک جملہ شعر دعا یہ نصیحت میرے لیے
تمام لوگ ہیں موجود میری دنیا میں
وہ جس کا ہونا ضروری تھا بس وہی کم ہے
وہ جو بچھڑا تو یہ رمز بھی اس نے سمجھائی
روح ایسے نکلتی ہے
انسان ایسے مرا کرتے ہیں
وہ اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے
میں اپنے وعدے نبھا رہا ہوں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
یہ کس الجھن میں جی رہا ہوں
میں اپنے سائے سے ڈر رہا ہوں
جو ہو سکے تو سمیٹ لے وہ مجھکو
میں تنکا تنکا بکھر رہا ہوں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
نہ دل میں کوئی ملال رکھے
وہ ہمیشہ اپنا خیال رکھے
وہ اپنے سارے غم مجھکو دے دے
تمام خوشیاں وہ سنبھال رکھے
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
میں تنہا ساون بِتا چکا ہوں
میں سارے ارمان جلا چکا ہوں
جو شعلے بھڑکتے تھے خواہشوں کے
وہ آنسوؤں سے بجھا چکا ہوں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
بغیر اسکے اداس ہوں میں
بدلتی رت کا قیاس ہوں میں
بجھا دے اپنی محبتوں سے تو
سلگتی صدیوں کی پیاس ہوں میں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
وہ جذبے میرے کچل گیا ہے وفا کے سانچے میں ڈھل گیا ہے
نہ بدلے موسم بھی اتنی جلدی وہ جتنی جلدی بدل گیا ہے
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا میں چاک دامن کو سی رہا ہوں
بہت ہی مشکل سے جی رہا ہوں دیا جو نفرت کا زہر اسنے
سمجھ کے وہ امرت پی رہا ہوں کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
فصیل نفرت گرا رہا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
کسی کی تو لگی ہے بدعا مجھے ۔۔۔
تبھی میری زندگی برباد ہو گئی ہے
یارب!
میں ایک کھلونا مٹی کا
تیرے کن سے جو تخلیق ہوا
تیرے کرم نے ذی روح کیا مجھے
تیرے حکم سے یہ سانسیں چلتی ہیں
تیرے فضل سے ہستی قائم ہے
تو ہی اول تو ہی آخر ہے
تو ہی ظاہر تو ہی باطن ہے
اک اور کرم فرما مجھ پہ
میرے سارے زنگ اتار یارب!
اور اپنا رنگ چڑھا مجھ پہ!
کبھی خوش ہوئے تو، لکھیں گے
کیوں طبیعت اُداس رہتی ہے...
سانسوں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام__
جینے کے باوجود بھی مر جاتے ہیں کچھ لوگ_
مجھے شوق تھا کہ ملوں تجھے
مجھے خوف بھی تھا کہوں گا کیا؟؟
تیرےسامنے سے نکل گیا
بڑا سہما سہما_ ڈرا ڈرا.
ہم آج بھی ہیں سوچ میں ڈوبے ہوئے محسنؔ
خود سے کبھی دنیا سے روٹھے ہوئے محسنؔ
دینے کے لئے اس کو، جو ہم نے سنبھالے تھے
وہ پھول کتابوں میں ہیں، سوکھے ہوئے محسنؔ
وہ اپنی جفاؤں میں کچھ کمی تو کریں آج
اک عمر ہوئی شہر وہ چھوڑے ہوئے محسنؔ
ہم نے یہ کہا تھا کہ انہیں پیار ہے ہم سے
ہم آج بھری بزم میں جھوٹے ہوئے محسنؔ
آغوش میں ان کی ہمیں راحت جو ملی ہے
ہم آج کچھ اندر سے ہیں ٹوٹے ہوۓ محسن...!
ہمیں خبر ہے تمام دکھ ہے یہ
آس دکھ ہے نراس دکھ ہے
اداسیوں کا لباس دکھ ہے
یہ تشنگی جو عذاب بن کر ٹھہر گئی ہے
بدن کے بوسیدہ ساحلوں پر
تو اسکا عہد دوام دکھ ہے
یہ شور کرتی ہوا کا سارا خرام دکھ ہے
ہمیں خبر ہے
تمام دکھ ہے
یہ تم محبت جو نبھا رہے ہو
تو اس محبت کا نام دکھ ہے
یہ وصل موسم جو اک مسلسل مغالطہ ہے
تو اس رفاقت کا نام دکھ ہے
اور ایسی وحشت نما وفا میں
خاموش رہنا بھی اک سزا ہے
مگر کسی سے کلام دکھ ہے
ہمیں خبر ہے تمام دکھ ہے۔۔۔!
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانو کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
اے محبت تِرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تِرے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسئہ نوحہ گری
اس قدر گردشِ انجام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل
مجھ کو اپنے دلِ ناکام پہ رونا آیا
ہماری موت جوانی میں لکھ دی جاتی ہے
ہم ایسے لوگ فقط منہ دکھانے آتے ہیں
لگتا ہے میں تم سے خفا ہوں
چلو چھوڑو کونسا تم خدا ہو
لگتا ہے تم مجھ سے جدا ہو
چلو چھوڑو کونسا پہلی دفعہ ہو
لگتا ہے میں مر رہا ہوں
چلو چھوڑو کونسا تم دوا ہو۔۔

submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain