پاگل ہے دیوانہ ہے یہ، بہکی باتیں کرتا ہے یاں میرے سب گھر والوں کو مجھ شاعر سے مسئلہ ہے بقول گھر والے محسن کو کیوں پڑھتا ہے، کیوں جون کو مرشد کہتا ہے ہنستے ہنستے روتا ہے اور روتے روتے ہنستا ہے
لہرا کے جھوم جھوم کے لا مسکرا کے لا پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا محسوس ہو رہا ہے ستارے علیل ہیں اُنکو بھی ایک گھونٹ کہیں سے پلا کے لا ساغر شِکن ہے شیخ بلانوش کی نظر شیشے کو زیرِ دامن رنگیں چُھپا کے ل کیوں جا رہی ہے روٹھ کر رنگینیٔ بہار جا ایک مرتبہ اُسے پھر ورغلا کے لا دیکھی نہیں ہے تو نے کبھی زندگی کی لہر اچھا تو جا عدمؔ کی صراحی اٹھا کے لا
تیرگی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُمنڈتی ہی چلی آتی ہے شب کی رگ رگ سے لہو پھٹ رہا ہو جیسے چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی دونوں عالم کا نشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹوٹ رہا ہو جیسے
میرے جیسے اس بستی میں اور بھی پاگل رہتے ہیں سب نے آنکھیں گروی رکھ کر آدھے خواب خریدے ہیں کوئل کوا چیل ,کبوتر طوطا مینا چڑیا ,مور شام ڈھلے سب چپ چپ بیٹھے ,اک دوجے کو تکتے ہیں دریا ساغر ,امبر بادل بارش ,آندھی, دھوپ, ہوا سب تیرا بہروپ ہے سائیں! تیرا نام ہی جپتے ہیں خالی کرسی,دو کپ چائے,سبزہ,خوشبو,بوندا باندی صبح سویرے مجھ سے مل کر تیر ی باتیں کرتے ہیں ہجر , اداسی , وحشت, آنسو , آوارہ پن , بیزاری شوریدہ دل ,چاک گریباں,سب الفت کے جھگڑے ہیں ساغر, میر ,فراز اور غالب, مومن, داغ, قتیل اور فیض اوڑھ کے مصرعے نظمیں, غزلیں, چین ,سکون سے سوئے ہیں باتیں, یادیں ,راتیں ,آنکھیں ,بانہیں, آہیں ,فریادیں سُونے گھر کے اک کونے میں اکثر مل کر روتے ہیں چاند,ستارے ,جگنو,سورج, پریاں ,جن اور اڑتے پنچھی سب دھرتی پر آکر دانش اس کے پاؤں کو چھوتے
منزلیں لاکھ کٹھن آئیں گُزر جاؤں گا حوصلہ ہار کے بیٹھوں گا تو مر جاؤں گا چل رہے تھے جو میرے ساتھ کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے تھے کہ رستے میں بِکھر جاؤں گا در بدر ہونے سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا گھر مُجھے راس نہ آیا تو کِدھر جاؤں گا یاد رکھے مُجھے دنیا تری تصویر کے ساتھ رنگ ایسے تری تصویر میں بھر جاؤں گا لاکھ روکیں یہ اندھیرے مرا رستہ لیکن میں جِدھر روشنی جائے گی اُدھر جاؤں گا راس آئی نہ محبت مُجھے ورنہ ساقیؔ میں نے سوچا تھا کہ ہر دِل میں اُتر جاؤں گا
اُڑ جائیں گے تصویر کے رنگوں کی طرح ہیں ھم وقت کی ٹہنی پہ پرندوں کی طرح ہیں تم شاخ پہ کھلتے ہوئے پھولوں کی طرح ہو ہم ریت پہ لکھے ہوئے حرفوں کی طرح ہیں اک عمر ترستے ہیں کسی ایک خوشی کو ہم لوگ بھی بنجر سی زمینوں کی طرح ہیں دنیا کے لیے کچھ بھی سہی تیرے لیے ہم مخلص سدا ماں کی دعاؤں کی طرح ہیں تاریخ کی نظروں میں ھم اک عمر سے اسکول سے بھاگے ہوئے بچوں کی طرح ہیں۔۔
واسطہ حسن سے کیا شدّت جذبات سے کیا عشق کو تیرے قبیلے یامیری ذات سے کیا میری مصروف طبیعت بھی کہاں روک سکی وہ تو یاد آتا ہے اسُ کو میرے دن رات سے کیا پیاس دیکھوں یا کروں فکر کہ گھر کچا ہے سوچ میں ہوں کہ میرا رشتہ ہے برسات سے کیا؟ آج اسے فکر ہے کیا لوگ کہیں گے محسن کل جو کہتا تھا مجھے رسم و روایات سے کیا؟