وہ بھی کیا دن تھے جب گہری اداسی بھی دو غزلیں لکھنے سے غائب ہو جاتی تھی مگر اب اداسی جڑیں پکڑ جاتی ہے اب لکھتا ہوں تو کچھ لکھا بھی نہیں جاتا بس اداسی بڑھتی جاتی ہے
جا بہ جا اداسی تھی پورے وجود میں اسکے روتی تھی تحریر ، ہر شعر اشکبار تھا اس کا قبل وصال اپنے اندر ہی مر گیا __ ایلیا جون یوں تو کہنے کو زندوں میں شمار تھا اس کا
یہ چبھن اکیلے پن کی ، یہ لگن اداس شب سے میں ہوا سے لڑ رہا ہوں تجھے کیا بتاؤں کب سے یہ سحر کی سازشیں تھیں کہ یہ انتقام شب تھا مجھے زندگی کا سورج نہ بچا سکا غضب سے ترے نام سے شفا ہو کوئی زخم وہ عطا کر مرے نامہ بر ملے تو ، اسے کہنا یہ ادب سے وہ جواں رتوں کی شامیں کہاں کھو گئی ہیں محسن میں تو بجھ کے رہ گیا ہوں وہ بچھڑ گیا ہے جب سے 🖤
لبوں سے لفظ جھڑیں آنکھ سے نمی نکلے۔۔ کسی طرح تو میرے دل سے بےدلی نکلے۔۔ میں چاہتا ہوں پرندے رہا کئے جائیں، میں چاہتا ہوں تیرے ہونٹ سے ہنسی نکلے۔۔ میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے، میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے۔۔ میں چاہتا ہوں مجھے تاقچوں میں رکھا جائے، میں چاہتا ہوں جلوں ، اور روشنی نکلے۔۔ میں چاہتا ہوں تیرے ہجر میں عجیب ہو کچھ، میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے۔۔ میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہوجائے، میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے۔۔ میں چاہتا ہوں مجھے کوئی درد دان کرے، شدید اتنا کہ آنسو ہنسی خوشی نکلے۔۔