ایک وہ جو مجھ سے بچھڑ کر بھی خوش رہتی ہے
ایک میں ہوں جو اس کے ساتھ بھی اداس رہتا ہوں
https://free.facebook.com/Asim-writes-101877104725532/?ref=104
Like my poetry page
For my own poetry

ہونٹوں پہ ساحلوں کی طرح تشنگی رہی
میں چپ ہوا تو میری انا چیختی رہی
اک نام کیا لکھا تیرا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
سڑکوں پہ سرد رات رہی میری ہمسفر
آنکھوں میں میرے ساتھ تھکن جاگتی رہی
یادوں سے کھیلتی رہی تنہائی رات بھر
خوشبو کے انتظار میں شب بھیگتی رہی
وہ لفظ لفظ مجھ پہ اترتا رہا محسن
سوچوں پہ اس کے نام کی تختی لگی رہی.!!!
میرا آخری دیدار کیسے کرے گا وہ
مِرے مرنے کی کس طرح اس کو خبر ہو گی 🔥💔"
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو مر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
ستارے گر بتا دیتے سفر کتنا کٹھن ہوگا
پیالے شہد کے پیتے, تلخ ایام سے پہلے
یہ ہم جو لفظ لکھتے ہیں, ہماری آپ بیتی ہے
کہ دکھ تحریر کب ہوتے, کسی الہام سے پہلے
باتوں باتوں میں ______خدا کو یہ بتایا میں نے
مجھ کو اک شخص ضروری تھا _مگر اچھا خیر!!
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اُسی کافر کے ہو گئے۔۔۔۔۔۔!!!
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب.
میں نے تو کہا تھا کہ میرے دل میں رہا کر
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اُسی کافر کے ہو گئے۔۔۔۔۔۔!!!
میں پھر مسکرا لیتا ہوں
مگر دل اداس رہتا ہے
ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
رک رک کے ساز چھیڑ کہ دل مطمئن نہیں تھم تھم کے مے پلا کہ طبیعت اداس ہے
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
مجھ سے نظر نہ پھیر کہ برہم ہے زندگی مجھ سے نظر ملا کہ طبیعت اداس ہے
شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے
ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی
رخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے
امشب گریز و رم کا نہیں ہے کوئی محل آغوش میں در آ کہ طبیعت اداس ہے
کیفیت سکوت سے بڑھتا ہے اور غم قصہ کوئی سنا کہ طبیعت اداس ہے
یوں ہی درست ہوگی طبیعت تری کمبخت بھول جا کہ طبیعت اداس ہے
توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمؔ تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے
کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
سرد موسم میں ٹھٹھرتے ہوئے جسموں کے لیے
چادریں کیوں نہ مزاروں سے اُٹھا لی جائیں؟
بساطِ دل پہ عجب ہے شکستِ ذات کا لُطف
جہاں پر جیت اٹل ہو وہ چال ہار کے دیکھ
تیری غفلتوں کو خبر کہاں ؟🖤
میری اداسیاں ہیں عروج پر"🔥
Ela
ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائیں گے
شاید میں بنا ہی اِس لیے تها
کہ ہر کوئی اپنے حصے کا نوچ لے
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے
ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے
مسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا
ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے
یہ اور بات عدالت ہے بےخبر ورنہ
تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے
اثر دِکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے
بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بدگمان بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے
قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain