حالتِ گفتگو نہیں عشرتِ آرزو نہیں
کتنی اُداس آئی ہے شامِ وصال شہر میں
یادوں کا حساب رکھ رہا ہوں
سینے میں عذاب رکھ رہا ہوں
تم کچھ کہے جاؤ کیا کہوں میں
بس دل میں جواب رکھ رہا ہوں
تم پر میں صحیفہ ہائے کہنہ
اک تازہ کتاب رکھ رہا ہوں
اشکوں کا دریا تھمتا نہیں ہے
یادوں کی بارش رکتی نہیں ہے
امید سحر اب تک ہے باقی لیکن
شب غم کسی طور کٹتی نہیں ہے
عذابِ ہجر میں زندگی میری اور
اک خواہش وصل ہے جو مٹتی نہیں ہے
اک زندگی ہے جو کب کی ختم ہو گئی
اک سانس ہے جو رکتی نہیں ہے
میرے خواب تھے میری اوقات سے اونچے
اور ان کی تعبیر مجھے ملتی نہیں ہے
مجھے لگتا ہے میں نے دیکھا ہے عاصی~
تیرا چہرا مجھ سے اجنبی نہیں ہے
تیری دوستی کا حق میں اس طرح سے ادا کروں گا
جب تک بھی زندہ رہا تجھ سے ہی وفا کروں گا
اسی طور سے ہی گزر جائے گی زندگی میری
تیری یاد میں اشک بہاتا رہوں گا آور کیا کروں گا
سانس تک ہی رک جاتی ہے یہ سوچ کر
میں کیسے خود کو تجھ سے جدا کروں گا
ہر ستم ہنس کر سہہ لوں گا تیرا میں
خود پر میں ظلم کی اک انتہا کروں گا
تجھے جیتا ہوں میں اتنا ہی ہو گا
اس سے زیادہ نہ زندگی تجھ سے نبھا کروں گا
,تیرے بعد تنہائی سے ہی رشتے رہے گا میرا
پھر کس کو مناؤں گا کسے خفا کروں گا
اک ہی کام بچے گا میرے پاس عاصی ~
میں جی بھر کے اپنی حالت تباہ کروں گا
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے...
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا؟
مجھے شکوہ نہیں بس پوچھنا ہے..
یہ تم ہنستی ہو،اپنی ہی ہنسی کیا؟
کون بتائے کہ کیا ہے زندگی ..
سنا ہے بہت بے وفا ہے زندگی
وقت بهرے گا ہر اک زخم
میرے درد کی دوا ہے زندگی
تیرے بغیر جو گزارنی پڑ جائے تو
میرے لیے اک سزا ہے زندگی
ہر انداز ہے نرالا اس کا
ہر رنگ روپ سے جدا ہے زندگی
جوق در جوق ملتے ہیں درد
ہر غم سے آشنا ہے زندگی
منایا لاکھ میں نے اسے مگر
آج بھی مجھ سے خفا ہے زندگی
تلاش اس کو کروں میں کوچ در کوچ
عاصی~اب کہی لاپتہ ہے زندگی
اے دردِ دل تو ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
حالت زار جو دیکھی بیمار محبت کی
تو لوگوں نے کہا تو مر کیوں نہیں جاتا
ہزاروں خواب روز بہہ جاتے ہیں ا
اے اشکوں کے دریا تو اتر کیوں نہیں جاتا
کب تک خون دل سے اسے سینچتا رہوں
اے یادوں کے گلشن تو بکھر کیوں نہیں جاتا
اتنا بھی نہ کر خود کو برباد عاصی~
ابھی وقت ہے تو سدھر کیوں نہیں جاتا
ہم دشت کے باسی ہیں ارے شہر کے لوگو
یہ روح پیاسی ہمیں ورثے میں ملی ہے
دکھ درد سے صدیوں کا تعلق ہے ہمارا
آنکھوں کی اداسی ہمیں ورثے میں ملی ہے
جاں دینا روایت ہے قبیلے کی ہماری
یہ سیاہ لباسی ہمیں ورثے میں ملی ہے
جو بات بھی کہتے ہیں اتر جاتی ہے دل میں
تاثیر جدا سی ہمیں ورثے میں ملی ہے
جو ہاتھ بھی تھاما ہے سدا ساتھ رہا ہے
احباب شناسی ہمیں ورثے میں ملی ہے
مجھکو یہ بھی نہیں معلوم کہاں رھتا ھے
جو کہ چلتی ھوئ سانسوں میں رواں رھتا ھے
یوں تو ھر طرح سے ویراں ھے دل کی بستی
بن بتائے ھی مگر کوئ یہاں رھتا ھے
اب کسی رات میں جلتا نہیں کوئ چراغ
شام سے بس اسکی یادوں کا دھواں رھتا ھے
کوئ دو دن کے لیے جو ھو جاتا مہماں دل میں
وہ چلا جائے تو پھر اسکا نشاں رھتا ھے
عکس اسکا نظر آتا ھے ھر اک چیز میں محسن
رات دن بس اسکا ھی گماں رھتا ھے
مجھکو یہ بھی نہیں معلوم کہاں رھتا ھے
جو کہ چلتی ھوئ سانسوں میں رواں رھتا ھے
یوں تو ھر طرح سے ویراں ھے دل کی بستی
بن بتائے ھی مگر کوئ یہاں رھتا ھے
اب کسی رات میں جلتا نہیں کوئ چراغ
شام سے بس اسکی یادوں کا دھواں رھتا ھے
کوئ دو دن کے لیے جو ھو جاتا مہماں دل میں
وہ چلا جائے تو پھر اسکا نشاں رھتا ھے
عکس اسکا نظر آتا ھے ھر اک چیز میں محسن
رات دن بس اسکا ھی گماں رھتا ھے
کسی سے نہ ملنے کے بہانے کرنے والا
میں بہت جلد اکتا جانے والا
لوگوں سے مسکراہٹوں سے
خوشیوں سے چیزوں سے
دوستوں سے اپنوں سے
اور
سب سے زیادہ خود سے
ایسے لڑکوں کو بھی بهلا کوئی پسند کرتا ہے
جن کی الگ ہی دنیا ہو
جن کے خواب گاڑی پیسہ کچھ بھی نہ ہو بس
چند لمحے خاموشی کے ہوں سکون کے ہوں
اک چھوٹی سی دنیا ہو جہاں دکھاوا نہ ہو بس سادگی ہو
ایسی سادگی ایسا خلوص ہو جو ایک دو صدی پہلے ہوا کرتا تھا 🖤
تم کہاں ہو لوٹ کر کیوں نہیں اتے اے دوست
دیکھو تو سہی میں احساس تنہائی سے مر رہا ہوں
محرومی سی محرومی ہے ناکامی سی ناکامی
غم تو دیوانہ کر دے اچھے خاصے فرزانے کو
جون تو اِک دیوانہ ٹھیرا اور پھر کیسا دیوانہ
دیکھوجانےکیاکربیٹھے روکو اس دیوانے کو
میں تو کب کا گزر چکا خود سے
تم بھی خود سے گزر تو سکتی ہو
کوئی درمان دل نہیں لیکن
تم مری جان! مر تو سکتی ہو
آج پھر وقت ٹھہر گیا ہے
آج پھر تم یاد آئے ہو
آج پھر تنہائی راس ہے
آج پھر نومبر اداس ہے
آج پھر درد لازوال ہے
آج پھر حوصلہ کمال ہے
آج کا دن مشکل سے کٹا ہے
آج کی رات قیامت ہو گی
اب یاد نہ آیا کرو مجھے
یوں نہ ستایا کرو مجھے
اک دن قفس توڑ دونگا
کسی شام تیری دنیا چھوڑ دونگا
ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﺭﺍﺕ
ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﯿﮟ
ﺗﯿﺰ ﺑﺨﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻠﺴﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺴﻢ
مجھے پسند ہے
رکتی ہوئی سانسیں
ڈوبتی ہوئی نبضیں
مجھے پسند ہے
بے ﻗﺮﺍﺭ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺟﮭﺮﻭنکوں ﺳﮯ
ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯﮐﯽ
ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ
ﺁﺝ ﮐﻞ ﻧﻮﻣﺒﺮ ﮐﯽ
ﭘﮭﺮﺍﺩﺍﺱ ﺷﺎﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ
ﺩﺳﻤﺒﺮ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﻭﻗﺖ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺯﺭﺩ ﺯﺭﺩ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺍﺱ ﺳﺮﺩ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﭨﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﻮ
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
نومبر تیری سب چالیں
دسمبر جیسی لگتی ہیں
وہی ٹھنڈک وہی خنکی
وہی یادوں کی برساتیں
وہی بے خود میری سانسیں
وہی بے ربط تیری باتیں
نومبر زخم دے کر پھر
بلاتے ہو دسمبر کیوں
مجھے ان سرد لمحوں میں
رلاتے ہو نومبر کیوں ؟
مجھے کنارے کی کب تمنا
تمہیں ہے دریا کے پار جانا
مگر یہ سوچو
کہ آج دریا چڑھا ہوا ہے
بپھرتی موجوں کی سرخ آنکھیں بتا رہی ہیں
خراج مانگے گا آج دریا
ترا ضروری ہے پار جانا
تو ایسا کر لو
مجھے شریک سفر بنا لو
کہ میرا کیا ہے
خراج مانگے جو تم سے دریا
مجھے بھنور میں اتار دینا
ترا ضروری ہے پار جانا
آتے ہوئے رویا نہ میں جاتے ہوئے رویا
جتنا میں ترا شہر بھلاتے ہوئے رویا
بچوں کو سناتا رہا ابّا کی کہانی
کل رات میں بچوں کو سلاتے ہوئے رویا
کچھ ایسی محبت سے میں ہارا ہوں محبت
دشمن بھی مِرا جشن مناتے ہوئے رویا
رب جانے ڈرامے میں ڈرامہ تھا، ۔یا سچ تھا
اک آدمی تھیٹر میں ہنساتے ہوئے رویا
وہ کون مصوّر تھا جو آزاد نگر کی
تصویر میں زنجیر بناتے ہوئے رویا
بیماری سے لڑتی ہوئی جنت ہے مری ماں
یونہی نہیں میں پاؤں دباتے ہوئے رویا
یہ شاعری احساس کی معراج ہے گر تو
کیا کوئی کبھی شعر سناتے ہوئےرویا؟
شاگرد الف اسلحہ پڑھنے پہ مصر تھے
استاد الف امن پڑھاتےہوئے رویا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain