میری باتیں ، تیری کہانی اور یہ نومبر___ میرا ہاتھ ، تیرا ساتھ ، لمبی سڑک اور یہ نومبر گم سم شامیں ، سنہری راتیں اور یہ نومبر___ بھیگے دن ، مدھم سورج ، ہلکے بادل اور یہ نومبر تنہا میں ، تنہا چاند ، میرا کمرہ اور یہ نومبر میری آنکھیں ، میری نیند ، تیرے خواب اور یہ نومبر___
آنکھوں سے اتر کر مرے دل تک کوئی آئے اِس در پہ بھی دینے کبھی دستک کوئی آئے پہلے تو بڑے دام بتاتا تھا وہ دل کے اب آس میں بیٹھا ہے کہ گاہک کوئی آئے ہر بار مَیں دنیا کے بلاوے پہ گیا ہوں اِس بار یہ خواہش ہے کہ مجھ تک کوئی آئے اب ایک سا موسم تو ہمیشہ نہیں رہتا ممکن ہے کسی روز اچانک کوئی آئے احباب کے قدموں کو ترستی ہے مری شام کھولے ہوئے بیٹھا ہوں مَیں بیٹھک، کوئی آئے اُس دل کے مکاں کا مَیں حسن پہلا مکیں ہوں آتا ہے مرے بعد تو بے شک کوئی آئے