تم آو گے جنازے پر میرے یہی سوچ کر
میں نے مرنے میں جلدی کر دی ہے
انداز بدل گے زندگی کے
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے، جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے ، جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
وہ کہے آنکھیں کھول باتیں کر
۰
میرے پاس اختیار نہ ھو..
میں نکل پاتا نہیں________ یاد کے حلقے سے کبھی
مجھ کو اک شخص میں____ رہ جانے کی بیماری ہے.
میں چاہتا ہوں کہ اُس سےملوں تو مرجاؤں
وہ میری آخری خواہش کامعجزہ دیکھے...
جو حیات تھی تجھے وار دی
اب عروج کیا اور زوال کیا❣
جب پہلے پہل تجھے دیکھا تھا
دل کتنے زور سے دھڑکا تھا
وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی
وہ وقت نہ لوٹ کے پھر آیا
اُردُو اٙدب
اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں...
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
آسان نہ کر دی ہو کہیں موت نے مشکل
روتے ہوئے بیمار ، بڑی دیر سے چُپ ہیں
ویراں ھے میکدہ خم و ساغر اداس ھیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔ دن بہار کے
Please come back
دستک کس آس پہ دیۓ جا رہے ہو
دروازے پہ تالے لگے ہوۓ ہیں۔
یہ دل اداس ہے بہت کوئی پیغام ہی لکھ دو
تم اپنا نام نہ لکھو گمنام ہی لکھ دو
میری قسمت میں غم تنہائی ہے لیکن
تمام عمر نہ لکھو مگر ایک شام ہی لکھ دو
چلو ہم مان لیتے ہیں کے سزا کے مستحق ٹھرے
کوئی انعام نہ لکھو کوئی الزام ہی لکھ دو
تُو نے بھی اپنے خدّ و خال، جانے کہاں گنوا دیئے
میں نے بھی اپنے خواب کو، جانے کہاں گنوا دیا
ہر ورق الٹا کہ دیکھا کہ شاہد کوئ تیری تحریر ھو
ہر صحفے پہ ملی تیری محبت____ گمشدہ گمش
میرے ذہن کو جو نہیں قبول
وُہی لوگ ہیں میرے ہم سفر
مُجھے ہر طرح سے جو راس تھا
وُہی شخص مُجھ سے بچھڑ گیا
سانس لینے میں بھی دشواری ہے
افق پر اسرار ، وحشت کی خامشی، دھوکہ دیتے راستے
ہم کہاں کہاں سے گزر گئے اے زندگی تیرے واسطے
حیات بھی اپنے مزاج میں بس بیزار سی رہی
میری روح تک اتر گئے کچھ بے سبب سے حادثے
چھڑی گھما کے پری نے بدل دیا سب کچھ ۔۔
مجھے سنائی تھی ماں نے کہانیاں کیا کیا
اپنی منزل کا راستہ بھیجو
جان ہم کو وہاں بُلا بھیجو
کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زُلف یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو
نئی کلیاں جو اَب کھِلی ہیں وہاں
اُن کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو
ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو
دھُول اڑتی ہے جو اُس آنگن میں
اُس کو بھیجو، صبا صبا بھیجو
اے فقیرو! گلی کے اُس گُل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو
شفقِ شامِ ہجر کے ہاتھوں
اپنی اُتری ہوئی قبا بھیجو
کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں، کوئی بَد دُعا بھیجو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain