چھوڑ کے جانے والوں کو بس اتنا سوچنا چاہئے تھا
پیچھے رہ جانے والوں کا دل تو خالی ہو جائے گا
ﮐﺴﯽ ﮐﻼﻡ ﮐﺴﯽ ﻗﯿﻞ ﻭ ﻗﺎﻝ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ
ﻭﮦ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ
ﻣﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﺠﻠﺖ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺭﻭﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﺮﮮ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ
وصل کے سلسلے تو کیا اب تو
ہجر کے سلسلے ہیں بے معنیٰ
کوئی رشتہ ہی جب کسی سے نہیں
دل کے سارے گلے ہیں بے معنیٰ🔥
جی چاہتا ہے خود کو مٹا دوں
موت کو گلے سے لگا لوں
جب سے گئے ہیں آپ کسی اجنبی کے ساتھ !
سو درد لگ گئے ہیں میری زندگی کے ساتھ !
کیسے بھلا سکوں گا میں احسان آپ کا !
کھیلا کیے ہیں آپ میری زندگی کے ساتھ!
باہر جو دیکھتے ہیں وہ سمجھیں گے کس طرح !
کتنے غموں کی بھیڑ ہے ایک آدمی کے ساتھ !
بھیڑ ہے چاروں طرف اور کوئی آشنا بھی نہیں
.عاصی اس بھری دنیا میں کوئی مجھ سا تنہا بھی نہیں
لوگ چہرے کی ہنسی دیکھتے ہیں دل کے زخم کون دیکھے .
جاو قبر سے نکال کر لاؤ اسے کے میرے درد جون دیکھے
وہ نظر نظر میں دل لے گیا
اور میں دیکھتا ہی رہ گیا۔
میرے جرم تو تھے ہی عجیب تر
میری وضاحتیں بھی عجیب تھیں ،،،
میں تختہ دار پر بھی چپ رہا
میری چاہتیں بھی عجیب تھیں ...
لڑکھڑاتا ہوں تو رو کہ لپٹ جاتی ہے.
میں نے گرنا ہے تو اس لڑکی نے مر جانا ہے یار.
ﻣﻨﺰﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻋﺴﻖ ﮨﻮ
ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺪﻋﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﻣﯿﮟ
ﺳﮑﻮﻥ ﺷﮑﻞ ﺩﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
Mujhe akser loog firqe ka pochte hain to main jawab deta hoon...
Sare firqon se Acha aik firqa udass logon ka
ﺣﺴﯿﻦ ﮐﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﺎ
ﺣﻖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﺍﻧﮧ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﺎ
ﺍﮎ ﻟﻔﻆ ﺷﮑﻮﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻼ
ﺗﭙﺘﯽ ﺭﯾﺖ ﭘﺮ ﮐﭩﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﮔﻬﺮﺍﻧﺎ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﺎ
لوکی عشق وعشق کر لیندیں نیں
اساں عشق دا پیر جگا بیٹھے
لوکی یار لبن تو پھردے نیں
اساں لبیا یار گوا بیٹھے
اے دنیا والے پاگل نیں
جیڑے عاشق نوں سمجھاندیں نیں
جیڑی آگ نہ بجھدی سمندراں نوں
آکو پھوکاں نال بجھاندیں نیں
میرا کشکول کب سے خالی تھا
میں نے اُس میں شراب بھر لی ہے
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ " ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ " ﮐﯽ ﺻﺪﺍ !
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﻮﮐﮭﭧ ﭘﮧ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﭘﮑﺎﺭﺍ ۔ﮐﻮﺋﯽ ﮨﮯ ؟؟؟
تم آو گے جنازے پر میرے یہی سوچ کر
میں نے مرنے میں جلدی کر دی ہے
انداز بدل گے زندگی کے
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے، جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے ، جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain