وہ کہے آنکھیں کھول باتیں کر
۰
میرے پاس اختیار نہ ھو..
میں نکل پاتا نہیں________ یاد کے حلقے سے کبھی
مجھ کو اک شخص میں____ رہ جانے کی بیماری ہے.
میں چاہتا ہوں کہ اُس سےملوں تو مرجاؤں
وہ میری آخری خواہش کامعجزہ دیکھے...
جو حیات تھی تجھے وار دی
اب عروج کیا اور زوال کیا❣
جب پہلے پہل تجھے دیکھا تھا
دل کتنے زور سے دھڑکا تھا
وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی
وہ وقت نہ لوٹ کے پھر آیا
اُردُو اٙدب
اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں...
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
آسان نہ کر دی ہو کہیں موت نے مشکل
روتے ہوئے بیمار ، بڑی دیر سے چُپ ہیں
ویراں ھے میکدہ خم و ساغر اداس ھیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔ دن بہار کے
Please come back
دستک کس آس پہ دیۓ جا رہے ہو
دروازے پہ تالے لگے ہوۓ ہیں۔
یہ دل اداس ہے بہت کوئی پیغام ہی لکھ دو
تم اپنا نام نہ لکھو گمنام ہی لکھ دو
میری قسمت میں غم تنہائی ہے لیکن
تمام عمر نہ لکھو مگر ایک شام ہی لکھ دو
چلو ہم مان لیتے ہیں کے سزا کے مستحق ٹھرے
کوئی انعام نہ لکھو کوئی الزام ہی لکھ دو
تُو نے بھی اپنے خدّ و خال، جانے کہاں گنوا دیئے
میں نے بھی اپنے خواب کو، جانے کہاں گنوا دیا
ہر ورق الٹا کہ دیکھا کہ شاہد کوئ تیری تحریر ھو
ہر صحفے پہ ملی تیری محبت____ گمشدہ گمش
میرے ذہن کو جو نہیں قبول
وُہی لوگ ہیں میرے ہم سفر
مُجھے ہر طرح سے جو راس تھا
وُہی شخص مُجھ سے بچھڑ گیا
سانس لینے میں بھی دشواری ہے
افق پر اسرار ، وحشت کی خامشی، دھوکہ دیتے راستے
ہم کہاں کہاں سے گزر گئے اے زندگی تیرے واسطے
حیات بھی اپنے مزاج میں بس بیزار سی رہی
میری روح تک اتر گئے کچھ بے سبب سے حادثے
چھڑی گھما کے پری نے بدل دیا سب کچھ ۔۔
مجھے سنائی تھی ماں نے کہانیاں کیا کیا
اپنی منزل کا راستہ بھیجو
جان ہم کو وہاں بُلا بھیجو
کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زُلف یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو
نئی کلیاں جو اَب کھِلی ہیں وہاں
اُن کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو
ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو
دھُول اڑتی ہے جو اُس آنگن میں
اُس کو بھیجو، صبا صبا بھیجو
اے فقیرو! گلی کے اُس گُل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو
شفقِ شامِ ہجر کے ہاتھوں
اپنی اُتری ہوئی قبا بھیجو
کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں، کوئی بَد دُعا بھیجو
موسم تھا بےقرار،تمہیں سوچتے رہے
کل رات بار بار تمہیں سوچتے رہے
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے ہم
چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے
مَیں بچ کے آیا ہوں اُس منزلِ اذیت سے
خُدا کے بعد جہاں دیکھنے کو کچھ بھی نہیں
مَیں دیکھتا تھا اُسے اور اُسے بتاتا تھا
کہ اُس کے جیسا یہاں دیکھنے کو کچھ بھی نہیں
مجھ سے بچھڑے ہو تو محبوبِ نظر کس کے ہو؟
آجکل کس کو مناتے ہو کہاں ہوتے ہو؟
تم تو خوشیوں کی رفاقت کے لیے بچھڑے تھے
اب اگر اشک بہاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain