😊😔تری قیمت گھٹائی جا رہی ہے مجھے فرقت سکھائی جا رہی ہے یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے وہ شے جو صرف ہندوستان کی تھی وہ پاکستان لائی جا رہی ہے کہاں کا دین، کیسا دین، کیا دین یہ کیا گڑ بڑ مچائی جا رہی ہے شعورِ آدمی کی سر زمیں تک خدا کی اب دُہائی جا رہی ہے بہت سی صورتیں منظر میں لا کر تمنا آزمائی جا رہی ہے مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے خدا تیری خدائی جا رہی ہے نہیں معلوم کیا سازش ہے دل کی کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے ہے ویرانی کی دھوپ اور ایک آنگن اور اس پر لُو چلائی جا رہی ہے
تجھ سے بچھڑے ہیں مگر عشق کہاں ختم ہوا یہ وہ جیتی ہوئی بازی ہے جو ہاری نہ گئی۔۔ !! تو ہے وہ خواب جو آنکھوں سے اتارا نہ گیا تو وہ خواہش ہے جو ہم سے کبھی ماری نہ گئی
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے توبہت دیرسے ملا ہے مجھے تو محبت سے کوئی چال تو چل ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں اِک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فراز سب میں اِک شخص ہی ملا ہے مجھے
آب خنک میں ڈوب گئے شمس و قمر میرے اشک كے مقابل نہیں ، تیری آنکھیں جھیل نما کیا ، سمندر نما ھوں گی میرے دِل سے نہیں گہری ، تیری آنکھیں خوبصورتی نظارے میں نہیں ، نظر میں ہوتی ہے میری آنکھوں کو لگتی ہیں خوبصورت ، تیری آنکھیں لبوں سے کہہ رہی ہو نہ ملا کرو اور کچھ اور کہہ رہی ہیں ، تیری آنکھیں ساگر و پیمانے سے ،واعظ نے دوستی کرلی بن گئے رند صوفی ، جب سے دیکھیں ، تیری آنکھیں یونہی بدنام ہیں میری گستاخ نگاہیں صبح سے شام تک کتنوں کو تکتی ہیں ، تیری آنکھیں او طوفانوں سے لڑنے والے سکندر کیوں ساحل پہ ڈوب گئی ، تیری آنکھیں
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں میں چاہتا ہوں ترے ہونٹ سے ہنسی نکلے میں چاہتاہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے میں چاہتا ہوں مجھے طاقچوں میں رکھا جائے میں چاہتا ہوں جلوں اور روشنی نکلے میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے میں چاہتا ہوں ترے ہجر میں عجیب ہو کچھ میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے میں چاہتا ہوں مجھے کوئی درد دان کرے شدید اتنا کہ آنسو ہنسی خوشی نکلے
بہت ممکن تھا میرے پاؤں ،میرے زیست کے کانٹے نکل جاتے بہت ممکن تھا میری راہ کے پتھّر پگھل جاتے جو دیواریں میرے رستے میں حائل تھیں میرے آگے سے ہٹ جاتیں اگر تم آنکھ اٹھا کر دیکھ لیتے کوہساروں کی طرف اک پل چٹانیں اک تمہاری جنبش ابرو سے کٹ جاتیں بہت ممکن تھا انگاروں بھری اس زندگانی میں تمہارے پاؤں کے اجلے کنول کھِلتے رفاقت کی سنہری جھیل میں دونوں کے عکس ضوفشاں بنتے بس اک خواب مسلسل کی فضا رہتی ہماری روح کب ہم سے خفا رہتی یہ سب کچھ عین ممکن تھا.... اگر تم _____!!!! مجھ کو مل جاتے....!!