"-تعبیر کی حسرت لیے ان چند سالوں میں ,
کچھ خواب میری آنکھوں میں جی جی کے مرے ہیں"-
💔🙃
اگر کوئی آپکو کھونے سے ڈرتا ہو
تو اس کےڈر کی عزت کرنی چاہیئے
کیونکہ اگر اس کا ڈر ختم ہو گیا
تو آپ کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہو جائے گا
نا گِلے رہے، نا گُماں رہے، نا گزارشیں رہیں، نا گُفتگو
نا مَیں رہا، نا تم رہے، نا فرمائشیں رہیں، نا جُستجو🥀
تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔“
کتنا سہل جانا تھا
خوشبوؤں کو چھو لینا
بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر
گھر میں قید کر لینا
روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا
کتنا سہل جانا تھا
خوشبوؤں کو چھو لینا
جگنوؤں کی باتوں سے پھول جیسے آنگن میں
روشنی سی کرلینا
اس کی یاد کا چہرہ خوابناک آنکھوں کی
جھیل کے گلابوں پر دیر تک سجا رکھنا
کتنا سہل جانا تھا
اے نظر کی خوش فہمی ! اس طرح نہیں ہوتا
“تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے“
🙂🥹
تمام موسم ، ادھار موسم
برستی بارش ، چمکتی بوندیں
گلابی شامیں ، سنہری راتیں
وہ چاند تاروں کی محفلیں بھی
ہوا کے جھونکوں کی دلکشی بھی
۔
یہ سب نظارے اداس کیوں ہیں ؟؟؟؟
۔
سوال پوچھا تو بات نکلی
تمام موسم ہیں ، دل کے موسم
وہ ساتھ ہے تو حسین موسم
اگر نہیں تو ، اداس موسم
تمام موسم ، ادھار موسم ۔۔!❤️❤️
تم جو دیکھ لو میری آنکھوں میں مجسم خود کو
تمہیں میری محبت سے بلا کا عشق ہو جائے..🖤
تُو نے دیکھی ہی نہیں زخم پہ مرہم کی جلن...!!!
تُو نے دیکھا ہی نہیں چہرے پہ دُھتکار کا دُکھ..!!!"
❤️🌻~•
ہمارا اگلا سفر دھوپ کا سہی ، لیکن
تمہاری چھاؤں میں اب لوٹ کر نہیں آنا💔
تجھے خبر ہے تجھے سوچنے کی خاطر ہم
بہت سے کام مقدر پہ ٹال رکھتے ہیں
شاید کل یا پرسوں یا شاید اَن گنت سالوں کے بعد، شاید کسی شام ہم غیر ارادی طور پر گزرتی ہوئی سڑک پر مل جائیں ۔۔ 💜
کبھی کبھی تیرے لہجے کی شبنمی ٹھنڈک
سماعتوں کے دریچوں پہ خواب خواب اُترے
ہم نے ترے بغیر بھی جی کر دکھا دیا
اب یہ سوال ہے کہ پھر دل کا کیا ہوا
*سب کچھ نہیں ملتا زندگی میں*
*کسی کا کاش تو کسی کا اگر رہ ہی جاتا ہے*
💔
حسرتیں ، حیرتیں ، تمنائیں
ایک دُنیا میں کتنی دُنیائیں 🖤
آرزو کے کنول کھلے ہی نہ تھے
فرض کر لو کہ ہم ملے ہی نہ تھے
🖤
مُجھے ہمیشہ یاد رَہے گا ...
تُمہارا یُوں بِلا وجہ بَدل جانا !- 🙂🍂
مجھے خبر نہیں دکھنے میں کیسی لگتی ہے
مری حدود سے باہر خوشی بنائی گئی
مرے خمیر پہ ساری ہی صرف ہو گئی تھی
پھر اس کے بعد اداسی نئی بنائی گئی
اب وہ آنکھوں کے شگوفے ہیں نہ چہروں کے گلاب
ایک منحوس اداسی ہے کہ مٹتی ہی نہیں!
اداسیوں کا تعفّن رہا وہیں کا وہیں
جلایا کمرے میں لوبان اور عُود بہت
قدیم خوابوں کی روحیں مگر نہیں نکلیں
اگرچہ آنکھوں پہ کروائے دَم دُرود بہت
کہکشاں سے پَرے،
آسماں سے پَرے،
رہگزارِ زمان و مکاں سے پَرے
مجھ کو ہر حال میں ڈھونڈنا تھا اُسے،
یہ زمین کا سفر تو بہانہ ہُوا ♡
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain