Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

نہیں ملی تو اس شے کی طلب نے مجھے دیوانہ کر دیا۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی ہم اس چیز کی ضد کر لیتے ہیں جو ہماری ہوتی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ میری عمر بھر کی دیوانگی بے کار چلی گئی۔۔۔۔۔ اور اس دربددی میں مجھ سے میرا اللہ دور ہوگیا۔۔۔۔وہ کہتا رہا کہ وہ مانگ جو تیرا ہے۔۔۔۔ میں کہتا رہا کہ مجھے وہ دے جو میرا ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔ پانچ وقتی نمازی تھا۔۔۔ پر اس عشق نے کافر سے بدتر کر دیا۔۔۔ اور جب تم جیسے راہ چلتے مہربانوں کو دیکھتا ہوں تو اپنی اس دیوانگی پر لعنت بھیجنے کو دل چاہتا ہے کہ وہ رب میری اتنی نافرمانی کے بعد بھی مجھے نہیں بھولا۔۔۔۔۔۔۔۔ تم جیسے بھیج کر وہ مجھے اب بھی کہہ رہا ہے کہ لوٹ آ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہاتھ دیکھ رہے ہو میرا۔۔۔۔۔۔ دعائیں رد ہونے پر کاٹ ڈالا تھا۔۔۔۔۔۔۔ بلکل ویسے جیسے اس مالک سے میرا رابطہ کٹ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیوانگی مجھے تباہ کر گئی۔۔۔۔

anusinha
 

تو جیسے وہ اوپر والا سہارہ بنا گیا اسے" آذان نے محسوس کیا کہ وہ آدمی کسی بڑے دکھ میں غرق تھا۔۔۔اسکی خلقوں والی زرد آنکھیں اب سرخی لیے ہنس دی تھیں۔۔
"آپ ناامید نہ ہوں۔۔۔۔ میرے ساتھ چلیں۔ میں آپکو اپنے گھر کوئی نوکری دے دوں گا۔۔۔چوکیداری کر لیجئے گا۔۔۔اس بچے کو بھی سکول جانا چاہیے۔۔۔آپ اتنے دکھی کیوں ہیں۔" آذان کی صورت دیکھ کر وہ اب مسکرایا تھا۔۔۔۔ خدا بھی کیسا کیسا مہربان ہے۔۔۔۔۔ایک نافرمان کو بھی مدد پہنچا دیتا ہے۔۔۔۔
"ھا۔۔۔۔ " پھر سے وہ آنکھیں نم تھیں۔۔۔ آذان کا تجسس تھا کہ بڑھ رہا تھا۔۔۔
"صاحب اگر ایک انسان ساری عمر ایک ہی چیز مانگنے پر لگا دے تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں۔۔۔ جانتے ہو صاحب؟ تم جیسا خوبرو جوان تھا میں بھی۔۔۔۔محبت ھائے یہ کمبخت جنون۔۔۔۔۔ پہلے تو اس بے گانی شے کو دعاوں میں مانگتا رہا۔۔۔۔۔

anusinha
 

شاید وہ بھی مینو کو نڈھال کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنی اس بے وقوفی پر سوچے۔۔۔۔۔۔وہ وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔ کئی بے آواز آنسو اسکے چہرے کی تکلیف میں کئی گنا اضافہ کر گئے تھے۔۔۔۔۔
"آپ مینو کی جان سے بھی بڑھ کر ہیں۔۔۔اور ستم یہ کہ مجھے یہ جان اپنے ہاتھوں نکالنی ہے۔۔۔۔وقت آگیا ہے کہ مینو سب کی زندگیوں سے دور چلی جائے" شدید کرب میں وہ یہ کہہ کر مزید اضافہ کرتے روئی تھی۔۔۔
◇◇◇
"یہ آپکا بیٹا ہے" وہ بچہ اسی چادر کے ایک کنارے پر گہری نیند میں تھا۔۔۔۔ آذان نے پوچھا تو وہ آدمی ایک نظر اس بچے کو دیکھنے کے بعد آذان کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
"بیٹا ہی سمجھ لو صاحب۔۔۔ اسکا باپ نہ تھا اور میرا شاید میں خود بھی نہیں۔۔۔ایک دن یونہی اس بچے کو مجھ پر ترس آگیا۔۔۔ باپ بنا لیا مجھے۔۔۔۔۔ میں بھی بن گیا۔۔۔۔۔ موت تو مانگ مانگ کر نہیں ملتی

anusinha
 

اپنوں کی محبت تمہاری کمزوری ہے۔ مگر یہ حانی تمہیں تمہارا سب کچھ لوٹانا چاہتا ہے۔۔۔۔ اگر میرے بس میں ہو تو میں تمہارے آگے بھیک مانگ مانگ کر فنا ہو جاوں مگر تمہیں خود سے دور نہ ہونے دوں۔۔۔۔ مینو میں تھک چکا ہوں۔۔۔ اس سے پہلے کہ گر جاوں، مجھے وہ اظہار دے دو جو میرا حق ہے۔۔۔۔۔ پھر میں تمہارے ہر فیصلے پر راضی ہوں۔۔۔۔۔۔ " مینو کو لگا جیسے اسکی روح فنا ہو گئی ہے۔۔۔۔۔ یہ کیسی گھڑی تھی کہ وہ حانی کی تکلیف چاہ کر بھی دور نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔۔ اتنی محبت صرف اسکے لیے ہے یہ سوچ کر ہی اسے دردناک تکلیف نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ حانی کا سامنا وہ اسی لیے نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔
"میں ابھی جا رہا ہوں۔۔۔۔ مجھے تمہارا جواب جلد چاہیے۔ اپنا خیال رکھنا" بنا اسے مزید جبرا خود کے قریب لائے وہ بس اسے یونہی دیکھ کر باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

anusinha
 

اس محبت کا جو تمہیں مجھ سے ہے۔۔۔ میرے حصے اتنا خالی پن مت رکھو مینو کہ میں زندگی بھر کے لیے ایک لاش بن جاوں۔۔۔۔۔ میری زندگی کا دارومدار اب تمہارے لفظوں پر آن ٹکا ہے۔۔۔۔مجھے کم ازکم میرا یہ حق دے دو۔۔۔۔۔۔۔ " حانی تھکے انداز میں ان نیلی آنکھوں والی کو ایک نئے صدمے سے دوچار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اظہار مطلب سب ختم۔۔۔۔۔ واہ حنوط مرتضی بڑی چال چلی ہے تم نے مینو کی اسیری کی۔۔۔۔وہ تو ساکت تھی۔۔۔۔ کس کمبخت میں ہمت تھی کہ اظہار کے بعد بچھڑنے کا حوصلہ کر پاتا۔۔۔۔۔۔۔
"حنوط مرتضی کی ساری خوشی تم سے ہے۔۔۔ حنوط مرتضئ تمہارا ہے۔۔۔۔۔اس پر پہلا حق بھی تمہارا ہے۔۔۔ اظہار کا بھی اور اختیار کا بھی۔۔۔۔۔۔ تم سے بڑا امانت دار ہوں مینو۔۔۔۔۔ مجھے یوں بے آبرو مت کرو کہ میں خود سے نظریں نہ ملا پاوں ۔۔۔۔۔ جانتا ہوں رشتوں کے کھونے سے ڈرتی ہو تم۔۔۔۔۔

anusinha
 

بہت پچھتاو گی۔۔۔۔ ساری دنیا کو خوش کرنے کا ٹھیکہ تم نے ہی اٹھا رکھا ہے کیا۔ تم میرا ساتھ دو تو میں ساری دنیا سے لڑ جاوں گا" وہ اسکے دونوں ہاتھ تھامے بہت دکھ سے اسے ایک آخری کوشش کرتے سمجھا رہا تھا۔
"کس زبان میں سمجھ آئے گی آپکو۔۔۔۔۔ مجھے آپکا ساتھ نہیں دینا نہ مجھے آپ اپنی زندگی میں چاہیں۔۔۔ مجھ پر رحم کریں۔ چلے جائیں یہاں سے" دل توڑنے میں وہ بہت زیادہ ظالم تھی۔۔۔۔ حانی کی آنکھ بھی لمحہ بھر کو پتھر ہو کر نم سی ہوئی۔۔۔
" مینال مرتضی اگر تم یہ کھیل مزید کھیلنے پر بضد ہو تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ چھوڑ دیتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔" مینو نے بے یقینی سے حانی کو دیکھا جو چہرے پر ماتم لائے اسکے دونوں ہاتھ چھوڑ چکا تھا۔۔۔۔دل نے دہائی دی کہ نہیں خدارا مجھے مت چھوڑیے گا حانی۔۔۔۔ چند آنسو مینو کے چہرے پر ڈھلک آئے۔
"لیکن تب جب تم مجھ سے اپنے منہ سے اظہار کرو گئ۔۔۔۔۔

anusinha
 

حانی کی بازووں میں قید ہو کر وہ اسکے سینے سے لگا دی گئی تھی۔۔۔۔۔۔اففففف یہ تاثیر کہ گویا پیاسا بہت مدت بعد سیراب کر دیا گیا تھا۔۔۔۔۔ ایک ناقابل علاج مریض کو جیسے شفاء کامل عطا کی گئی تھی۔۔۔۔ مگر اس حفاظت کا حصار خود پر دیر تک رکھنا بھی مینو کے اختیار میں نہ تھا۔۔۔۔ اپنے آنسو ضبط کیے وہ اس سے الگ ہوئے رخ پھیر گئی تھی۔۔۔۔
"آئیندہ ایسا کہا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔" وہ اسے رخ پھیر کر کھڑا دیکھ کر چلایا۔۔۔۔۔۔ کتنے ہی آنسو مینو کے چہرے کا حصہ بنے۔
" چلے جائیں۔۔ پلیز میری جان چھوڑ دیں حانی۔" وہ اسے پاگل کر دینا چاہتا تھا اور وہ ہو رہی تھی….
"ٹھیک ہے مجھے دیکھ کر کہو۔۔۔ میں بھی تو۔۔۔۔۔" وہ اسے روبرو کرتے ہوئے چپ ہو گیا تھا کیونکہ وہ سر جھکائے رو رہی تھی۔۔
"اگر مجھ سے دور ہونے میں تمہیں اتنی تکلیف ہو رہی ہے تو چھوڑ دو اپنی ضد ۔۔۔

anusinha
 

میں تمہاری ہر الجھن دور کروں گا" پھر سے وہ اسکا چہرہ تھامے التجاء کر رہا تھا۔
"مجھے کوئی خدشہ نہیں۔۔۔ مجھے آپکی زندگی میں نہیں رہنا۔۔۔ اور یہ میرا حق ہے" اور آخری بات پر تو حانی کی بے بسی غصے میں بدلی۔۔۔۔
"حق کی بات تم مت کرو۔۔۔۔۔میں اپنے حق وصول کرنے پر آگیا تو تمہیں بہت گراں گزرے گا۔۔۔۔جانتی بھی ہو شوہر ہوں تمہارا۔۔۔۔اور تم مسلسل میری ہر بات رد کر کے گناہ کما رہی ہو۔۔۔۔۔" اب تو وہ اسے ایموشنل کرنے کی کوشش میں تھا۔۔۔۔ مقصد بس مینو کا فیصلہ بدلنا تھا۔۔۔۔ وہ اسکی گرفت سے نکلتی ہوئی دور ہٹی۔
"تبھی کہا ہے مجھے اور خود کو گناہ سے بچا لیں" اب کی بار حانی حیرت میں تھا۔۔۔۔
"آپ دانیہ کے ہوجانے کے باوجود میری تمنا کا گناہ کر رہے ہیں" اب تو حانی کو اس بات پر ہنسی سی آئی۔وہ ابھی حانی کی ایمانداری سے واقف ہی کب تھی۔۔

anusinha
 

اسکے بیٹھتے ہی مینو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
"وائے یو ناٹ انڈر سٹینڈ می۔ آپ مجھے تنگ نہ کریں۔۔۔چلے جائیں یہاں سے" اب کی بار وہ بھی کھڑا ہو کر اسے اپنے سامنے کر چکا تھا۔۔۔۔۔چہرے پر بے حد سختی تھی۔
"مینو۔۔۔۔۔ تمہیں سمجھ نہیں آرہی کیا۔۔۔۔آج میں یہاں سے تمہارا فیصلہ بدل کر ہی جاوں گا۔ پھر چاہے پوری زندگی تمہارے قدموں میں پڑے گزر جائے۔۔۔۔۔۔بہت کھیل چکی ہو تم میرے جذبات سے۔ اب نہیں" وہ اپنے فیصلے کے اٹل ہونے کا ثبوت اپنی سنجیدگی سے دے چکا تھا۔
"مجھے اپنا فیصلہ نہیں بدلنا۔۔۔۔" وہ بھی سنجیدہ ہوئی۔
"بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔۔۔ مجھے یوں مت دھتکارو۔۔۔میری آنکھوں میں موجود تکلیف تمہیں کچھ نہیں کہہ رہی کیا۔۔۔ بتاو کیا چیز ہے جو تمہیں اس بدترین فیصلے پر مجبور کر رہی ہے۔۔ کونسا خدشہ ہے جو تمہارے اس تکلیف دہ فیصلے کی وجہ ہے۔۔۔ مجھے بتاو میں ہوں نا۔۔۔۔

anusinha
 

رات گہری ہو رہی تھی اور مینو کا ضبط جواب دے رہا تھا۔ وہ سامنے بیٹھا اسے نڈھال کر رہا تھا۔۔۔۔۔ بس یہ حوصلہ اپنے آخری کنارے پر تھا۔۔۔۔
"حانی پلیز چلے جائیں۔۔۔۔گھر میں سب آپکا انتظار کر رہے ہوں گے" سر جھکائے جیسے وہ شدید بوجھل تھی۔۔حانی اٹھا اور مینو کے قدموں میں جا بیٹھا۔۔۔
"تمہارا بھی انتظار کر رہے ہیں۔۔۔چلو میرے ساتھ" مینو کی گود میں پڑے اسکے بے جان ہاتھ ہونٹوں سے لگائے وہ بھی تھک چکا تھا۔۔۔۔۔ اسکے یوں کرنے سے وہ فورا ہاتھ چھڑا چکی تھی۔۔۔۔
"حانی آپ پلیز اپنی حد میں رہیں" غصہ اور گھبراہٹ ضبط کیے وہ اسے وارن کر رہی تھی۔۔
"تم مجھے میری حد مت بتاو۔۔۔۔ میں اگر چاہوں تو اسی وقت تمہیں اپنی ساری حدیں پار کر کے دیکھا سکتا ہوں مگر میں تمہاری طرح ظالم اور اذیت پسند نہیں ہوں" اٹھ کر اسکے ساتھ بیٹھتا ہوا وہ بھی دکھ میں تھا۔۔۔۔

anusinha
 

حانی کے مینو کے ہو جانے پر خوف زدہ بھی تھی۔۔۔۔
"میری جان سب اوپر والے پر چھوڑ دو۔۔۔ یہی اس انتشار کا حل ہے میری جان۔۔۔۔۔میں تمہیں نیند کی گولی دیتی ہوں۔۔۔ کچھ دیر سو جاو" اور نیند تو آج دانیہ کو گولی کھا کر بھی نہیں آنی تھی۔۔۔۔ عورت چاہے کتنا ہی بڑا ظرف کیوں نہ رکھتی ہو پر وہ اپنے شوہر کے معاملے میں دنیا کی خود غرض ترین مخلوق ہے۔۔۔۔۔۔ کیا بتاتی کہ حانی کو یوں مینو کے پاس سوچ کر بھی اسکا دل بند ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے مینو کے فیصلے کے بعد جیسے یقین ہو گیا تھا کہ مینو واقعی یہ سب نہیں چاہتی۔۔۔۔۔ اففففف مینو۔۔۔۔ تم کیا ہو؟ تم نے تو خود کو سب کے سامنے چٹان بنا دیا ہے۔۔۔۔خود تو تم ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ہو۔۔۔۔۔ کوئی مینو کی تکلیف تک پہنچا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔ اور جو پہنچا تھا وہ اسے دھتکار رہی تھی۔۔۔۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

گی۔۔۔۔۔ نہ ہی اس اتنی بڑی ناانصافی پر اسے معافی ملنا ممکن ہے" دانیہ کی تکلیف بھی کئی درجے بڑھی تھی۔
"اففففف یہ کیسا امتحان ہے۔۔۔۔۔۔ ایک طرف تم ہو اور دوسری طرف حانی۔۔۔۔۔۔ ہم کوئی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے میری جان۔" نادیہ آج مینو کے لیے زیادہ غمگین تھیں۔۔۔
"مما آپ دعا کریں کہ مینو کے دل میں حانی کے لیے ایسا کچھ نہ ہو۔۔۔۔۔۔ ورنہ آپکی دانیہ نہیں سہہ پائے گی۔۔۔۔ " یک دم وہ پھوٹ ہی پڑی۔۔۔۔
"تم خود کو ہلکان مت کرو دانیہ" نادیہ بھی افسردہ تھیں۔
"اگر حانی نے آج مینو کا فیصلہ بدل دیا تو کیا ہوگا؟ وہ اسے بے بس کر دے گا۔۔۔۔ وہ جس حالت میں گیا ہے نا وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ مما مجھے بہت خوف آ رہا ہے کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ؟" دانیہ شدید الجھاو میں تھی۔۔۔۔ یہ بھی چاہتی تھی کہ مینو ، حانی کی زندگی میں رہے اور دوسری طرف

anusinha
 

مینو کیا تمہیں میری تکلیف کا زرا احساس نہیں؟ " کیسی حسرت تھی حانی کے چہرے پر۔۔۔اور وہ تو بے دردی سے رخ پھیر کر اسکی تکلیف کسی صورت کم نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"مجھے کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔پلیز چلے جائیں" وہ شاید بے بسی کے آخری نقطے پر تھی۔
"پر مجھے تو کہنا ہے۔۔۔۔ سننا بھی ہے۔مجھے یہ احساس دو کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت ہیں۔۔۔" اسکا رخ اپنی جانب کیے وہ اسکا چہرہ تھامے بہت دھیمہ ہوا تھا۔۔۔۔مینو رو دینا چاہتی تھی۔
"نہیں دور ہٹیں۔۔۔ پلیز میرے قریب مت آئیں۔ چلے جائیں یہاں سے" اب کی بار تکلیف میں لپٹی ہوئی التجاء آئی تھی۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔ آج میں نہیں جاوں گا۔۔۔یہ رہا صوفہ اور یہ اس پر بیٹھا حنوط مرتضی " اب تو وہ اسے باقاعدہ غصہ دلا کر صوفے پر ٹانگ چڑھائے بیٹھ چکا تھا۔۔۔ مینو نے ایک کھا جانے والی نظر حانی پر ڈالی۔۔۔۔
"پلیز حانی چلے جائیں"

anusinha
 

اسے نڈھال ہوتا دیکھ رہا تھا۔
"ہاں۔۔۔۔ اس سے زیادہ دوں گا تکلیف۔۔۔۔۔ مجھے بتاو کے آخر تم یہ اذیت ناک کھیل کیوں کھیل رہی ہو مینو۔ جب تم نے کہا کہ دانیہ سے شادی کر لوں ، میں نے تمہاری سزا قبول کی۔۔۔۔۔۔ اسے اپنایا۔۔۔۔اب تو میری سزا ختم ہو جانی چاہیے" یک دم حانی کی گرفت ڈھیلی ہوئی اور اسی لمحے وہ اسے ایک بار پھر خود سے دور دھکیل چکی تھی۔۔۔۔
"میں نے جو کہنا ہے وہ ان پیپرز میں لکھا ہوا ہے۔۔۔۔ مجھے آپکی زندگی میں نہیں رہنا۔ مجھے آرام سے چھوڑ دیں حانی" اب تو وہ بمشکل خود پر ضبط کیے تھا۔۔۔
"میں تمہیں اپنے زندگی سے جانے کی اجازت نہیں دوں گا" آنکھوں کی سختی قائم تھی۔۔۔مینو کو لگا جیسے آج اسکا اینڈ ہونے والا ہے۔۔۔۔آج وہ حانی کے سامنے ہار جائے گی۔۔۔
"مجھے آپکی اجازت ملے نہ ملے۔۔۔ میں ہر صورت جاوں گی" اب تو وہ اسے پاگل لگ رہی تھی۔۔

anusinha
 

تم نے میرا کہ میں کئی گلیوں کی خاک چھان کر آرہا ہوں" وہ آنکھوں میں وہشت لیے آگے بڑھ رہا تھا اور وہ اپنا سانس بند ہوتا محسوس کرتی ہوئی پیچھے جا رہئ تھی۔۔۔
"آ۔۔۔۔آپ یہاں سے چلے جائیں ورنہ میں سیکورٹی بلا لوں گی" اب کی بار وہ اسکی دونوں بازو پکڑے دیوار سے لگا چکا تھا۔۔۔چہرے پر ایسا کرب تھا کہ مینو کا دل دہل چکا تھا۔۔
"اچھا۔۔۔۔ بلاو۔۔۔کیا کہو گی کہ پلیز مجھے میرے شوہر سے بچائیں۔ بلا ہی لو آج تم جسے دل چاہے۔۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں آج میرے اور تمہارے بیچ کون آتا ہے" حانی کے ہاتھوں اور آنکھوں دونوں میں ہی سختی اور بغاوت تھی۔۔۔۔مینو خوفزدہ ہو چکی تھی۔۔۔دل بھی جیسے اس زبردستی کی قربت پر رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
"حانی پلیز آپ مجھے تکلیف دے رہے ہیں" حانی کی انگلیاں مینو کی بازو میں پیوست ہوتی جارہی تھیں۔۔۔ مگر وہ آنکھوں میں فل وقت شدید غصہ لیے

anusinha
 

زمین پر رکھتے وہ خود بھی بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔۔آذان نے خاموشی سے ان دونوں کو کھانا کھاتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آدمی بہت مہذب طریقے سے کھا رہا تھا۔۔۔اسکا ایک ہاتھ ہلنے سے قاصر تھا اور شاید اس نے اسکو کسی وجہ سے چھپا رکھا تھا جبکہ وہ بچہ بہت تیزی سے اپنی بھوک مٹا رہا تھا۔۔۔۔۔ ناچاہتے ہوئے بھی آذان کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔
◇◇◇
"کو۔۔۔۔۔۔ن۔۔۔۔۔" مینو کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی وہ ایک بار پھر اسکے سامنے ہوگی۔۔۔۔لفظ جیسے خلق میں ہی پھنس گئے تھے۔ مینو کے چہرے پر ناقابل فراموش سکتہ دیکھ کر حانی نے ہاتھ اس آدھ کھلے دروازے پر رکھا۔۔۔۔اس سے پہلے کے وہ دروازہ بند کرتی وہ اپنا پورا زور لگائے اندر ہو چکا تھا۔۔۔ مینو یک دم خوفزدہ سی ہو کر پیچھے ہوئی۔
"کیوں؟؟؟؟؟؟ آخر کیوں دیا تم نے مجھے دھوکہ۔۔۔۔میرے جذبات کا اتنا مزاق۔۔۔دیکھو مجھے دیکھو کیا حال بنا دیا ہے

anusinha
 

وہ شخص بیٹھ چکا تھا۔۔۔ آذان بھی اسی انداز میں وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھا اسی جیسا فقیر ہی دیکھائی دے رہا تھا۔
"وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔۔۔ نہ صاحب۔۔۔۔۔ یہ ہوسپٹل ہم سوں کہ لیے کدھر کو بنے ہیں۔۔۔ ہم سے تو یونہی فٹ پاتھوں پر ایک دن مرے ملتے ہیں" آذان کو لگا جیسے وہ بہت دکھی اور تکلیف میں ہے۔۔۔۔
"ایسا نہیں ہے۔۔۔۔ اللہ اپنے بندوں کے لیے بہت رحمان ہے۔۔۔۔ شاید مجھے آج اسی نے یہاں بھیجا ہے۔۔۔۔" پتا نہیں آذان کو وہ شکل سے بہت اچھے گھر کا لگ رہا تھا۔۔۔۔ اسے تجسس سا ہوا۔
"اس سوہنے رب کا ہی کرم ہے کہ اس نے مجھ جیسے کو ابھی تک اس زمین پر برداشت کر رکھا۔۔۔۔ تم شکل سے دل والے لگتے ہو۔۔تبھی پہچان گئے ہو" وہ آذان کا تجسس مزید بڑھا گیا تھا۔۔۔ دور سے وہ بچہ ہاتھ میں چار پراٹھے اور ایک سالن کی پلیٹ لایا تھا۔۔۔پھر بگل میں دبائی پانی کی بوتل زمین پر رکھتے

anusinha
 

جس پر ایک بے جان وجود لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔
"تم جاو روٹی لے آو۔۔۔۔۔۔۔ میں ہوں تمہارے ابا کے پاس" آذان کے کہنے کی دیر تھی کہ اس بچے کے چہرے پر وہ رونق آئی کہ شاید آذان کو یہ لمحہ اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ لگا۔۔۔ بچہ اور آذان دونوں ہی مخالف سمت میں چلے گئے۔۔۔۔ وہ ایک بہت بوڑھا کمزور سا آدمی تھا۔۔۔۔گلے میں کئی تعویز تھے جو شاید پیسے نہ ہونے کے باعث بیماریوں سے خفاظت کو ڈال رکھے تھے۔۔۔ ہاتھ سیاہی سے اٹ چکے تھے۔۔۔ چہرے پر صدیوں کا اندھیرا تھا۔۔۔۔ مگر وہ آدمی ایک خوبصورت چہرہ رکھتا تھا۔۔۔۔اسکے نین نقش بتا رہے تھے کہ وہ اپنی جوانی میں ایک حسین شخص رہا ہوگا۔۔۔۔
"اسلام و علیکم " آہٹ پر جیسے وہ آدھ مرا وجود ہلا اور آنکھیں کھول کر آذان کی سمت دیکھنے لگا۔۔۔
"آپکے بیٹے نے بتایا کہ آپ بیمار ہیں۔۔۔ چلیں میں آپکو ہوسپٹل لے جاتا ہوں۔۔۔۔"

anusinha
 

آذان سنجیدگی سے اس بچے سے پوچھ رہا تھا جو پھولوں کی قیمت کا اندازہ لگانے میں مصروف تھا۔۔۔
"ہزار کے سب لے لو۔۔۔ کل سے روٹی نہیں کھائی۔۔ میرا ابا بہت بیمار ہے۔۔۔ صبح سے کسی نے مجھ سے پھول نہیں لیے" آذان کو لگا جیسے کسی کے اس پر آسمان گرا دیا ہے۔۔۔۔ یک دم وہ اس بچے کے قدموں میں بیٹھا۔۔۔ والٹ سے پانچ ہزار نکال کر اسے تھمائے۔۔۔۔۔ مگر وہ ساکت ہو چکا تھا کیونکہ اس بچے کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔
"نہیں صاحب ابا کہتا ہے ایک روپیہ فالتو نہ لینا۔۔۔۔" افففف یہ دنیا کیسی کیسی تکلیف دہ اذیتیں لیے ہے۔۔۔ آذان کو خود پر افسوس ہوا۔۔
"تم مجھے اپنے ابا سے ملواو۔۔۔۔ میں ان سے خود بات کر لوں گا" اس بچے سے سارے پھول لیتے ہوئے اور انھیں گاڑی میں رکھتے ہوئے آذان اس سمت دیکھ رہا تھا جہاں وہ بچہ اشارہ کر رہا تھا۔۔۔فٹ پاتھ کے قریب ہی ایک چادر تنی تھی

anusinha
 

وہ کافی دیر سے بے مقصد گاڑی دوڑا رہا تھا۔۔۔۔ ناجانے کیوں اسکی نیلی آنکھیں آج ایک بار پھر وہشت زدہ تھیں۔۔۔ مینو کو کھونا اسکی ذات کی لازوال تکلیف بنتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔گاڑی روکے اب وہ سر کو سیٹ کی بیک سے لگائے آنکھیں موندھ چکا تھا۔۔۔۔
"پھول لے لو۔۔۔گجرے لے لو۔۔۔۔روٹی کھانی ہے۔۔۔ ایک ہی لے لو" یک دم گاڑی کے کھلے شیشے سے آتی پھولوں کی خوشبو اور اس درد ناک آواز پر آذان نے آنکھیں کھولیں۔۔۔رات اپنے پورے جوبن پر تھی۔۔۔۔۔۔ سامنے ایک بچہ تھا جو شکل سے ہی بہت بھوکا اور غریب دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔۔اسکے ہاتھوں میں بے شمار گجرے اور پھولوں سے بنے چھوٹے چھوٹے بکے تھے۔۔
"صاحب یہ گجرے لے لو۔۔۔۔۔ اللہ تمہارا بھلا کرے گا" آذان تو جیسے اپنا کچھ دیر پہلے کا کرب بھلائے گاڑی کھول کر باہر نکل آیا۔۔۔
"ہمممم۔۔۔۔ دے دو۔۔۔کتنے کے ہیں"