Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

"سب چھوڑو۔۔۔ یہ بتاو کیسی لگ رہی ہوں" اب وہ اسے نارمل کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔حانی سچ میں اسے دیکھ ہی نہیں پایا تھا۔
"بہت اچھی" وہ فقط اتنا ہی بولا تھا۔۔۔
"اہممم اہممم۔۔۔۔۔اوہ سوری لگتا ہے غلط انٹری مار دی لیلی مجنوں کے بیچ" دائم نے زور سے کھانسنے کے بعد منہ اندر کر کے جھانکا تو وہ دونوں مسکرا دیے۔۔۔
"ھاھا بندر۔۔۔۔۔ہم آنے ہی لگے تھے باہر" دائم تو دونوں کو دیکھ کر دل سے مسکرایا۔۔۔۔ایک دوسرے کے ساتھ تو وہ ایک دم مکمل لگ رہے تھے۔۔۔
"ماشاء اللہ ماشاء اللہ چشم بددور۔۔۔۔ نظر نہ لگے۔۔۔ آجائیں بھئی اگر یہ میٹھی باتیں ختم ہو گئی ہیں۔۔۔" اب کی بار تو دائم شرارت لیے ہنسا اور وہیں سے واپس نکل گیا۔۔۔۔دانیہ تو ہنس رہی تھی مگر پھر جیسے الجھے ہوئے حانی کو دیکھ کر سنجیدہ ہو گئی۔
"بہت بگھڑ گیا ہے یہ" دانیہ مسکرائی تو حانی بھی بجھا سا مسکرا دیا۔۔۔۔

anusinha
 

تبھی اس نے حانی کو اس ناانصافی کی پورے دل سے اجازت دی تھی۔
"حانی یوں اداس مت ہو۔۔۔۔۔ میں تمہاری خوشی کے لیے مینو کو تمہاری زندگی میں واپس لاوں گی۔۔۔۔جب تم نے میری محبت کا احترام اور مان نہیں ٹوٹنے دیا تو میرا بھی فرض بنتا ہے کہ میں تمہاری تکلیف کا مداوا کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں" حانی کا چہرہ تھامے وہ مطمئین سی مسکراہٹ لیے تھی۔
"وہ مجھے چھوڑ دے گی" دانیہ کو وہ خوفزدہ لگا تھا۔
"میں اسے کہوں گی کہ رک جائے" دانیہ اسکی تکلیف نہیں سہہ پائی تھی۔۔۔
"دانیہ میں خود کو بے حد تھکا اور ہارا محسوس کر رہا ہوں۔دل کی گھبراہٹ کہہ رہی ہے کہ کچھ برا ہونے والا ہے" وہ دانیہ کو خود سے لگائے جیسے اپنا خوف چھپا رہا تھا۔۔
"سب ٹھیک ہوگا۔۔۔۔ ایسا مت سوچو" دونوں ہاتھوں سے حانی کا چہرہ تھامے وہ الگ ہوتے مسکرائی تھی۔۔۔ مگر وہ تو جیسے ہار لیے ویسا ہی تھا۔۔۔

anusinha
 

خود کو دانیہ کو مکمل سونپنا ابھی اسکے لیے کٹھن تھا۔۔۔۔۔ لیکن کہیں اندر مینو کی محبت سے ، اور خود مینو سے خیانت محسوس کرتا ہوا وہ یہ بڑی ناانصافی کر گیا تھا۔۔وہ جس کے لیے ابھی تک خود کو پابند کیے تھا۔۔۔۔ وہ اس سے بہت دور تھی۔۔۔۔ لیکن حانی کم ازکم مینو کی دوری برداشت نہیں کر پایا تھا۔ وہ تو اپنا آپ صرف مینو کو سونپنا چاہتا تھا۔۔۔اسکا دل زخمی تھا۔۔۔
کب دانیہ آئی اور اسکے سامنے آکر کھڑی ہوئی، اسے کچھ خبر نہ تھی۔۔۔۔ بہت خوبصورت سے گرے اور گرین کام والے ڈریس پر کھلے بال۔۔۔چہرہ ہلکے میک آپ سے مزین کیے وہ آج کوئی اور ہی دانیہ تھی۔۔۔۔۔چہرے کی سنجیدگی نے جیسے دھیمی سی حیا کا رنگ اوڑھ لیا ۔ حانی کا ساتھ ہی کافی تھا۔ ایک دن حانی کے مل جانے کی امید اسے مایوس نہیں کر رہی تھی۔۔۔وہ حانی کی تکلیف سے لمحہ بھر کو غافل نہیں تھی۔۔۔

anusinha
 

تھا۔۔۔ دائم نے ایک نظر ارحم کو دیکھا۔۔۔
"بچ کے دیکھانا اب اس چھچھورے سے" پھر یک دم ماہین کو اندر آتا دیکھ کر وہ منہ پر شرافت اور مسکینی لائے کچن سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔ نیلم نے بمشکل اپنی ہنسی کنڑول کی اور بریڈ لیے باہر آگئی۔۔۔۔۔۔
◇◇◇
حانی کا چہرہ سنجیدہ تھا۔۔۔۔ دانیہ شاید ریڈی ہو رہی تھی۔۔۔۔ فل بلیک میں جیسے اسکے چہرے کی ہر تلخی مزید گہری ہو کر بکھری تھی۔۔۔۔۔۔وہ فون سے مینو کا نمبر ڈائیل کر چکا تھا۔ مگر مینو کا نمبر آف تھا۔۔۔۔۔سب سے پہلا کام آج مینو نے یہی کیا تھا۔۔۔۔۔فرار کرنا ہے تو مکمل کرنا ہے۔۔۔۔۔گزری رات کا ہر لمحہ جیسے وہ فراموش کر دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔دل کی بے قراری اپنے عروج پر تھی۔۔۔۔دانیہ سے اس نے کوئی ناانصافی نہ کرتے ہوئے بھی ناانصافی کی تھی۔۔ محبت کرنے والے کوئی ناانصافی ڈیزرو نہیں کرتے مگر اسے کچھ وقت درکار تھا۔

anusinha
 

اوہ میری فاسٹ ترین پھپھو جان۔۔۔۔اجے کل تے ویاہ ہویا جے۔۔ کی کردے ہو تسی" دائم بھی ہنسی دبائے تھا۔۔
"بھئی تم نہیں سمجھو گے ہم عورتوں کے جذبات۔۔۔" اب تو وہ بھی ہنستی ہوئی ناشتے کی چیزیں لگانے باہر نکل گئیں۔۔
"بھئی کوئی ہم سے جذبات شئیر ہی نہیں کرتا تو سمجیں کیسے" وہ شلیف سے چھلانگ لگائے بولا تو دوبارہ اندر آتی ماہین نے اب اسکا کان پکڑا تھا۔۔۔۔
"تو مار کھائے گا اب چھچھورے" نرمی سے ہی کان پکڑے وہ ہنسیں۔ اب کی بار نادیہ بھی ہنستے ہوئے برتن لیے باہر چلی گئیں۔۔۔ ماہین بھی باقی چیزیں رکھ رہی تھیں۔۔۔ارحم تو گیم میں غرق تھا جبکہ نیلم ابھی پلیٹ میں بریڈ نکال کر رکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
"کیا میں واقعی چھچھورا ہوں" وہ نیلم کے کان کے قریب بولا تو وہ یک دم چونکی اور پھر ہنس دی۔
"ہاں ایک نمبر کے" مڑے بغیر ہی دبی ہنسی میں جواب آیا تھا۔۔۔

anusinha
 

جبکہ نیلم تو باقاعدہ منہ چھپا کر چائے کی طرف دھیان لگا چکی تھی۔۔۔۔۔
"ھاھا دائم تیرا کوئی حال نہیں میرے بچے" ماہین تو ابھی تک لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں۔۔۔
"ھائےےےےے یہ دن بھی آنا تھا۔۔۔۔۔ مجھ پر ایسے ایسے ظلم۔۔" اب تو وہ نیلم کے منہ پھیر کر ہنسی دبانے کی طرف اشارہ کرتے بولا تھا۔۔۔۔ سب ہی ان دونوں کی اس چھپی محبت سے واقف تھے۔۔۔ارحم تو اب پورے انہماک سے گیم میں گھسا تھا۔
"کتنا منہ پھٹ ہے دائم۔۔۔۔۔سب کے سامنے شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ " نیلم بھی اسکی حرکتوں پر ہنستے ہوئے سوچ رہی تھی۔۔۔
"میرے بچے صبر کر جا۔۔۔ تیرا یہ ظلم بھی جلد ختم کرتے ہیں۔۔۔ ویسے اب تو ایک ہی خواہش ہے کہ جلدی سے اس گھر میں بھی بچوں کی آوازیں آنے لگیں" اب تو ماہین کی پھرتیوں پر دائم کی بھی آنکھیں باہر آئی تھیں۔۔۔نادیہ اور نیلم تو ناشتے کو تقریبا ریڈی کر چکی تھیں۔

anusinha
 

ارحم صاحب تو اس انوکھے سوال پر دانت نکال رہے تھے
"اگر اسکی نظر میں ہوئی بھی تو اپنے لیے ہوگی ناں۔۔۔ تم میرے بچے کو کاکا مت سمجھو" اب کی بار ماہین بھی شرارت لیے بولی تھیں۔۔۔۔۔
"ھاھاھا اوئے تیری خیر۔۔۔۔۔۔۔ چل چل رکھ پاس تو ہی۔۔۔میری تو بھابھی ہے نا پھر۔۔۔۔میں اپنی خود ڈھونڈتا ہوں" کل اور آج دائم ، نیلم سے کچھ زیادہ ہی فری ہو رہا تھا۔۔۔۔ گدگدی وہ ارحم کو کر رہا تھا مگر شرارت سے دیکھ وہ نیلم کو رہا تھا جو دبی دبی ہنسی لیے تھی۔۔۔
"دیتی ہوں میں تجھے خود ڈھونڈنے۔۔۔۔۔ میں آل ریڈی ڈھونڈ چکی ہوں" اب تو دائم کا دل چاہا ایک بار پھر نادیہ کو گما ڈالے کیونکہ وہ بھی پیار سے نیلم کو دیکھتے بولی تھیں۔۔
"اہممم اہممم مما جب ڈھونڈ لی ہے تو ترسا کیوں رہی ہیں۔ نکاح پڑھوا کر اسے میرے منہ پے دے ماریں" اب تو ماہین اور نادیہ دونوں ہی ہنس دیں

anusinha
 

پھر یک دم مینو کی آنکھیں لازوال اداسی سے بھر گئیں۔ وہ ایک اہم فیصلہ لے چکی تھی جسکی شدت ناقابل برداشت تھی۔ مگر اسے پھر بھی قائم و دائم رہنا تھا۔۔۔۔۔ نظر بیڈ پر دھری اس فائیل پر گئی۔۔۔۔۔دل نے کہا کہ یہ آزادی کا پروانہ نہیں، بلکے تمہاری خوشیوں کے خاتمے کا پروانہ ہے مینو۔۔۔۔۔ ان نیلی آنکھوں میں نمی ابھری تھی۔
"آئی ایم سوری حانی۔۔ میں جانتی ہوں کہ میں آپکو آپکی برداشت سے بڑی سزا دینے والی ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی قسمت کبھی نہیں بن سکتے" وہ اپنی نم آنکھیں لیے دکھ میں وہ فائیل کھول رہی تھی۔۔۔۔یہی وہ پروانہ تھا جو آج ان دونوں کو الگ کر دینے والا تھا۔۔۔۔۔۔
"میں آپ کی تکلیف سے واقف ہوں حانی۔۔۔۔ لیکن میں آپکو مزید تکلیف دینے پر مجبور ہوں۔۔۔۔ آپکی اور دانیہ کی بہتری اسی میں ہے کہ مینو آپ دونوں سے بہت دور چلی جائے۔

anusinha
 

کسی اور کو حنوط مرتضی خود تک کبھی نہیں آنے دے گا" شکست خوردہ سا وہ خود کو مینو کا پابند کرتا ہوا دوبارہ باہر نکل گیا۔۔
◇◇◇
مینال صبح صبح ہی کہیں گئی تھی۔۔اسکے ہاتھ میں ایک فائیل تھی۔ وہ سیدھا اپنے کمرے میں آگئی۔ رات مہران کے کمرے سے آنے سے پہلے وہ ان سے ایک اجازت بھی لے کر لائی تھی جس پر وہ ایک لمحے کو ساکت ہوئے تھے۔۔۔۔مینو کھڑکی کے پردے ہٹا کر سامنے کھڑی تھی۔ اسکے چہرے پر ایک عجیب سا اطمینان تھا۔۔۔۔۔ آج وہ صبح صبح جاگی تھی۔۔۔ نماز بھی ادا کی۔۔۔اور ایک اہم کام بھی پورا کیا تھا۔۔۔۔۔۔مینو کی آنکھیں آج ہر ویرانی سے پاک تھیں۔۔۔
"پلیز اللہ مجھے حوصلہ دیجئے کہ میں دانیہ کی امانت ان تک مکمل پہنچا دوں" وہ دل سے دعا گو تھی۔۔۔۔سامنے لان میں مالی بابا اپنا کام شروع کر چکے تھے ۔ درختوں پر رنگ برنگے پرندے بھی جیسے مینو کی طرح اپنے رب سے ہم کلام تھے۔۔

anusinha
 

تم کب تک اسے اس زبردستی کے رشتے میں باندھ کر رکھ سکو گے" دانیہ کی بات پر حانی کا دل سا رکا۔۔۔۔۔۔
"کاش کوئی مجھے اور مینو کو بھی سمجھتا" حانی کا دل دہائی دے رہا تھا مگر وہ اسکا اثر باہر نہیں لا سکتا تھا۔۔۔
"حانی اگر وہ ہی تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو تمہیں اسکی آزادی اسے دے دینی چاہیے۔ باقی جیسا تم چاہو۔ دانیہ ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے" حانی کا یک دم بوجھل چہرہ تھامے وہ محبت سے بولی تھی۔
"تھینک یو ۔۔۔۔۔۔ اسکے متعلق بھی کچھ سوچتا ہوں۔۔۔۔ میں ابھی چینج کر کے آتا ہوں" دانیہ کا چہرہ تھامے کہتا ہوا وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔دروازہ بند کیا اور آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ اپنا شکست خوردہ اور بے بس چہرہ اسے خود بھی آج قابل قبول نہیں تھا۔۔۔۔۔دانیہ کو اتنی بڑی بات کہہ تو دی تھی اب اس پر عمل درآمد کرنا اسے بے حد کٹھن لگ رہا تھا۔۔۔۔

anusinha
 

اسے لفظوں کی تلاش کا عمل تھکا رہا تھا۔
"سب اچھا ہو گیا۔۔۔۔" جب کچھ نہ سمجھ آیا وہ تو یہی بول گیا۔
"ہاں۔۔۔شاید۔" وہ بھی سنجیدہ تھی۔
"میں نے تو اپنی پوری کوشش کی ہے کہ بکھری ہر چیز کو سمیٹ دوں۔ میرے اس انتشار میں تم نے میرا مان رکھ کر مجھے بہت خوشی دی ہے دانیہ۔۔۔۔۔۔۔ تم بہت اچھی ہو۔۔۔۔۔ شاید سب سے زیادہ" دانیہ صرف حانی کی مینو سے محبت کے متعلق جانتی تھی۔ مینو کے دل کے جذبات صرف حانی جانتا تھا۔۔۔۔دانیہ کو لگا جیسے حانی بہت اداس ہے۔۔۔
"میں نے تو دے دی۔ اب تمہاری باری ہے حانی" وہ خود ہی اسکا ہاتھ تھامے بولی۔ حانی کا دل ایک بار تو ضرور آڑے آنے والا تھا۔
"ہاں۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے تمہارے لیے لیا ۔۔" حانی نے سائیڈ ٹیبل سے ایک جیولری باکس نکال کر سامنے کیا۔۔۔۔۔ دانیہ مسکرا دی۔
"تم بھی ناں۔۔۔۔ " وہ مسکراتی ہوئی اور پیاری لگ رہی تھی۔

anusinha
 

مینو کا دل سا رکا تھا۔۔۔۔یہ حانی کی تکلیف تھی۔۔۔ اسکا درد تھا جو وہ لفظوں کا سہارہ لیے اس تک پہنچا چکا تھا۔۔۔۔۔مینو نے فون رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ پھر کچھ لمحے بعد اس نے لیمپ بھی بجھا دیا۔
◇◇◇
دانیہ تو آج کسی ریاست کی اداس سی ملکہ دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔ حانی نے اندر جا کر ایک نظر دانیہ پر ڈالی اور پھر اسی کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ دانیہ اسکی ہر الجھن محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔۔ وہ تو خالی سا تھا پر بھرا دیکھائی دینے کی کوشش میں تھا۔۔۔۔ اسکا تو یہئ دل چاہ رہا تھا کہ آج وہ کچھ نہ بولے۔۔۔۔لیکن وہ ایک بار پھر دانیہ کا دل کیسے توڑ دیتا۔۔۔۔وہ اسکی بچپن کی ساتھی اور دوست تھی۔ اسے سب سے زیادہ سمجھتی تھی۔ تبھی بنا کسی سوال اور جواب کے اس نے حانی کا فیصلہ قبول کیا تھا۔ حانی کو لگا جیسے آج اسکے پاس کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں۔

anusinha
 

تم یہ فکر مت کرو" مینو اسے مطمئین کر چکی تھی۔
"تم اس بات پر خفا تو نہیں" مہر کے دل میں یونہی آیا تو کہہ دیا۔
"پاگل ہو کیا۔۔۔۔۔ بھلا اس میں خفا ہونے والی کیا بات ہے مہر۔۔۔ یہ قدرتی ہے۔۔۔۔۔ تم ایک بیسٹ فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک امی جان ٹائپ بہن بھی ہو۔۔۔۔۔ " آخری بات پر مہر بھی ہنس دی تھی۔ مینو کی مسکراہٹ تو جیسے ادھوری سی تھی۔
"میری جان۔۔۔۔ میری دعا ہے کہ اللہ تمہاری یہ مشکلات بہت جلد حل کریں۔۔۔۔۔میں تمہاری سچئ خوشی کی منتظر ہوں۔ حوصلہ مت ہارنا۔۔۔۔ وہ کیا ہے کہ تم سچ میں میری شیرنی ہو" مہر نے محبت سے کہا تو وہ بھی ہلکا سا مسکرائی۔۔۔ فون بند کر کے سائیڈ پر رکھا۔۔۔۔۔مگر نظر اچانک حانی کے میسج پر پڑی۔۔۔۔ پھر سے اداسی لیے اوپن کیا۔۔۔۔
"تم سے اسکا حساب جلد لوں گا مینو۔ تمہارا مجھ سے یہ گریز دیکھ کر مجھے خود سے نفرت محسوس ہوئی ہے۔"

anusinha
 

مینو کیا تمہارے پاس کوئی سپیشل پاور ہے۔۔۔۔ تم کیسے اگلے کی بات بنا کہے جان جاتی ہو" مہر کو یک دم اس پر بے حد پیار سا آیا۔ اور وہ بھی مسکرائی تھی۔
"ہاں ۔شاید اوپر والے نے مینو کو یہ سپیشل آفر دوسروں کے دکھ کم کرنے کے لیے دی ہے۔۔۔۔۔۔ " مینو کا اطمینان قابل داد تھا۔
"اور تمہارے دکھ کون کم کرے گا میری جان" مہر اس کے لیے ایک بار پھر دکھ میں تھی۔
"وہی جو سبکے کرتا ہے۔۔۔۔۔" اور اسے امید نہیں یقین تھا کہ وہ سہی راستے پر ہے۔
"آمین۔۔۔۔ میں سچ میں یہی سوچ رہی تھی کہ کہیں تمہارا جانا ان دونوں کی زندگی کو متاثر نہ کردے۔۔۔۔ وہ آپس میں خوش رہنا سیکھ رہے ہیں" مہر خود غرض نہیں تھی۔ اسے بس عادی کی بھی اتنی ہی فکر تھی۔
"وہ متاثر نہیں ہوں گے اور خوش رہنا سیکھ چکے ہوں گے۔ اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ عادی میرا مان کبھی نہیں توڑے گا۔

anusinha
 

مگر حانی کے اندر کا دکھ اب کی بار خفگی میں بدلا تھا۔۔۔۔۔ محبت کے باوجود اسکا حانی سے یوں کنارہ کرنا ، حانی کے لیے سب سے بڑی تکلیف تھی۔۔۔۔۔۔
"ہاں کہنے کو۔۔۔لیکن امید ہے جلد ٹھیک ہو جاوں گی" مینو مایوس ہو کر بھی مایوس نہیں تھی۔
"عادی بتا رہا تھا کہ تم نیویارک جا رہی ہو۔۔۔۔" مہر بھی اب بیٹھ گئی تھی۔ مینو نے بھی سر بیڈ کی پشت سے ٹکا لیا تھا۔
"ہاں " مینو فقط اتنا ہی بولی۔
"اگر تم محض گھر سے دور رہنا چاہتی ہو تو تم میرے پاس آجاو مینو۔۔۔۔۔۔" مہر نے بھی آفر کی تو وہ مسکرا دی۔ لگتا تھا مہر کو کوئی خدشہ سا گھیر چکا ہے۔
"گھر سے نہیں۔ حانی سے دوری چاہتی ہوں۔۔۔ اور تم فکر مت کرو۔ میرا وہاں جانا ، عادی اور حرا کی زندگی میں کوئی برا اثر نہیں لائے گا۔" مہر شاک ہی تو ہو گئی تھی۔۔۔ مینو کیسے اسکا خدشہ بنا کہے سمجھ گئی تھی۔۔۔۔

anusinha
 

حانی ایک بار اپنے دل کی حالت مہران کو بتانا چاہتا تھا مگر وہ تو جیسے اس سے بیگانے ہی ہو گئے تھے۔۔۔
"وہ تو ابھی دوا لے کر سوئے ہیں۔۔۔ آپ ان سے صبح مل لیجئے گا۔ آپ بھی ریسٹ کریں اب" نیلم نے بتایا تو حانی کچھ سوچتا ہوا سر ہلائے اندر کی جانب بڑھ گیا جبکہ اب نیلم کی گھورتی ہوئی آنکھیں دائم پر تھیں۔۔۔۔وہ بھی نیلم کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
"میں ماروں تھپڑ۔۔۔۔ مکے ساتھ فری" اب تو دائم تھا اور اسکا بلند ہوتا قہقہہ۔۔۔۔۔
"یعنی ان فیوچر ہم ٹائم پاس کے لیے باکسنگ بھی کر سکتے ہیں۔۔ گڈ آئیڈیا" اب تو وہ بمشکل اپنی ہنسئ دبائے وہاں سے فرار ہوئی تھی۔ وہ بھی اپنے دلکش انداز میں ہنسا تھا۔
◇◇◇
"تم ٹھیک ہو نا" مہر بھی لان میں ہی ٹہل رہی تھی۔ اور نیند تو مینو کو بھی آج کہاں آنے والی تھی۔۔۔۔ حانی سے یوں چھپ کر وہ شاید سمجھ رہی تھی کہ وہ اسکی سزا سے بچ جائے گی۔

anusinha
 

تھینک یو میرے پیارے ہیرو بھیا۔۔۔۔ آپکو پتا ہے آپ میرے آئیڈیل ہیں حانی بھائی۔ مجھے پتا ہے آپ کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔۔۔ دانیہ آپی اور آپ ہمیشہ خوش رہیں گے۔" نیلم ایک بار پھر سر حانی کے سینے سے لگائے روہانسی سی ہوئی۔ وہ بھی اسے خود سے لگائے مسکرانے کی کوشش میں تھا۔
"ان شاء اللہ بھئی بہت خوش رہیں گے۔۔۔۔ حانی بھائی زرا ایک تھپر تو مار دیں مجھے۔۔۔سنا ہے یہ نیاز جسے ملتی ہے اسکی بھی شادی ہو جاتی ہے" اب تو دائم کی مسکین فرمائش پر وہ دونوں ہی ہنسے تھے۔
"تیرا بھی کچھ کرتے ہیں بندر" اب تو حانی اسکا کان پکڑے بولا تو وہ آنکھیں نکالتی نیلم کو دیکھ کر آنکھ مارے ہنسا۔۔ وہ تو غصے سے مزید زیادہ گھورنا شروع ہو چکی تھی۔۔۔
"کچھ بھی بولتے ہو۔۔۔۔۔ خیر اب آپ جا سکتے ہیں" نیلم نے راستہ دیتے کہا۔۔
"میں بابا سے ملنا چاہتا تھا"

anusinha
 

ایک تلخ نظر ڈالتا ہوا وہ مڑ گیا۔۔۔۔ بند دروازوں پر مسلسل کی جانے والی دستک یوں بھی بہت بے کار جاتی ہے۔۔۔۔ بنا مینو سے ملے وہ ہرگز جانا نہیں چاہتا تھا مگر وہ بھی تو آجکل بے حسی کی انتہا کر رہی تھی۔۔۔وہ اپنے کمرے کی طرف آرہا تھا جب نیلم اور دائم باہر نکلے۔ دونوں کے چہروں پر شرارتی سی مسکراہٹ دیکھ کر اسے بھی مجبورا لانی پڑی تھی۔
"میرے دلہا بھیا۔۔۔۔آپ بہت پیارے لگ رہے ہیں" نیلم، حانی کے ساتھ لگی تو وہ بھی مسکرا دیا۔ مگر اگلے ہی لمحے نیلم کے چہرے پر شرارت ابھری تھی۔
"ویسے میرا دل تو نہیں کر رہا لیکن مجھے آپکی جیب خالی کرنی پڑے گی " نیلم نے پرجوش ہوتے کہا تو دائم نے بھی نیلم کی ہاں میں بھرپور ہاں ملائی۔۔
"کیا یہ سچی میں رسم ہے۔۔۔ میں تو سمجھا سنی سنائی بات ہے۔۔ لو سب تمہارا" حانی نے تو سخاوت کی حد کی تھی۔۔ پورا والٹ ہی وہ نیلم کو تھما چکا تھا۔

anusinha
 

سامنے دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
"مینو۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے ملو فورا"مینو کی ڈھرکن تھم سی گئی۔ اور وہ جانتی تھی کہ آج اگر وہ گئی تو پھر کبھی لوٹ نہیں پائے گی۔ فنکشن ختم ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے روم کی طرف گئی اور ملازمہ کو کہا کہ وہ سونے لگی ہے۔۔۔۔۔ روم لاک کر کے وہ اندر آگئی۔۔۔۔۔۔چہرے پر اطمینان سا سجائے۔۔۔۔۔۔
"نہیں حانی۔۔۔۔۔۔۔اب مینو آپکو نہیں ملے گی" پھر جیسے یک دم اسکے چہرے پر حانی کو دینے والی ان ساری تکلیف کا دکھ ابھرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہیں پر بات آجاتی ہے اختیار کی۔۔۔۔۔۔
◇◇◇
نیلم نادیہ اور ماہین ، دانیہ کو روم میں لے جا چکی تھی۔ حانی نے نوٹ کیا تھا کہ مینو تب سے کہیں بھی دیکھائی نہیں دے رہی۔ چہرے پر ایک غصہ لائے وہ مینو کے کمرے کی طرف بڑھ چکا تھا۔
"تم میرا بہت امتحان لے رہی ہو مینو۔ " مینال کا دروازہ لاک تھا۔۔۔

anusinha
 

مگر وہ یہ بے بسی اپنے لیے خود چن چکا تھا۔
"کاش میں ان آنکھوں کی ساری ویرانی ختم کرنے کا اختیار رکھتا۔ لیکن مجھ سا بد قسمت بھی کوئی نہ ہوگا" وہ خود پر اب مسکرا دیا تھا۔۔۔۔۔۔مینو اگلے ہی لمحے وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔۔فوٹو شوٹ کے بعد کھانا لگ گیا تھا۔۔مینو آج کا پورا دن حانی کی طرف دیکھنے سے گریز کرتی آئی تھی اور اب بھی کر رہی تھی۔ اور وہ بھی تلخی لیے مینو کہ اس ایک اور ستم پر نالاں تھا۔۔۔مینو مطمئین تھی کہ سب نے اسے کہیں نا کہیں معاف کر دیا تھا۔۔۔بس تکلیف تو اس بات کی تھی کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسے دکھ دینے والی تھی جو اسکی سب سے بڑی خوشی تھا۔ وہ اپنی آنکھیں جھکائے جیسے ان تمام حالات کو پرکھ رہی تھی مگر کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔۔۔ میسج ٹون پر وہ اپنی خاموش سوچوں سے باہر آئی تھی۔۔حانی کا نام دیکھ کر لمحہ بھر اسکے ہاتھ کانپے۔۔۔۔