"نہ ہوا تو" یہ پہلی بار تھا جب دانیہ خوفزدہ تھی۔
"تو میں زبردستی احساس کروا سکتی ہوں۔۔۔ اور کرواوں گی۔۔۔ آئی پرامسس" دانیہ کی گال پر پیار کرتی ہوئی وہ اسے ہر طرح سے مطمئین کرنے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔دانیہ تو اس سے واقف ہی نہیں تھی کہ مینو بھی حانی سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔۔ بعض دفعہ لاعلمی بھی کئی کام خراب کر دیتی ہے۔۔۔۔دانیہ کے جانے کے بعد اسکا ارادہ اب مہران تایا کے کمرے میں جانے کا تھا۔۔۔۔۔
◇◇◇
اسے مت چھوڑنا۔۔۔ " دانیہ نے جیسے التجاء کی۔
"دانیہ پلیز آپ اس سبکو مت سوچیں۔۔۔ کل آپکی زندگی کا بہت بڑا دن ہے۔۔۔ آپ سے حانی بہت مخلص ہیں اسکا یقین رکھیے گا کیونکہ وہ سب سے پہلے آپ کے اچھے دوست ہیں" مینو نے دانیہ کا اداس چہرہ تھامے کہا۔
"تم اسے تکلیف مت دینا مینو۔۔۔وہ سہہ نہیں پائے گا" دانیہ کی تو ایک ہی رٹ تھی۔۔۔۔
"سہہ تو مینو بھی نہیں پائے گی مگر یہ اٹل ہے" دل میں کرب سے سوچتی مینو لمحہ بھر کو ساکت ہوئی۔
"اب ایسا بھی نہیں ہے۔ یہ انکا ایک جذباتی فیصلہ تھا اور آپ دیکھیے گا انکو اس بات کا بہت جلد احساس ہوگا" دانیہ کو اب مینو کی باتیں بہلا نہیں پا رہی تھیں۔
پھر تم کیوں ضد کر رہی ہو حانی سے" دانیہ کا چہرہ تاریک اور خفا تھا۔۔۔ مینو نے سر دانیہ کے کندھے پر رکھ دیا۔
"حانی کو آپ تک واپس پہنچانا میری خواہش ہے" وہ آنکھیں بند کیے مطمئین سی تھی۔
"تمہاری یہ خواہش مجھے مجرم بنا رہی ہے۔۔۔ حانی تمہارے ساتھ ہو یا میرے ساتھ کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔ اسکی خوشی تم ہو مینو " دانیہ لاچار سئ تھی۔۔مینو نے سر اٹھایا اور سیدھی ہو کر دانیہ کے روبرو ہوئی۔
"فرق پڑتا ہے دانیہ مجھے پڑتا ہے۔۔۔۔ آپکی خوشی حانی ہیں۔۔۔ میں کبھی آپ سے آپکی خوشی الگ نہیں کر سکتی۔۔۔ اس دن بھی اگر حانی نے مجھے گن پوائنٹ پر مجبور نہ کیا ہوتا تو میں کبھی بھی اس بے مطلب رشتے کے کاغذ پر دستخط نہ کرتی" دانیہ ایک دم بوجھل تھی اور مینو تو یہ باتیں ناجانے کس ضبط سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔
"وہ تمہیں پھر سے بھی مجبور کر سکتا ہے ناں۔ وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے مینو۔
ہر راستہ الگ اور پہلے سے بڑا انتشار لیے ہوئے تھا۔۔۔
◇◇◇
وہ مطمئین تھی کیا؟؟؟؟ ہاں شاید۔۔۔ مگر سب سے بڑی اذیت تو حانی کی زندگی سے نکلنا تھا۔۔۔۔۔وہ تو ابھی سے اس لمحے کی تکلیف محسوس کر رہی تھی جب وہ آخر کار حنوط مرتضی کی تمام محبت ٹھکرا کر اپنا دامن چھڑا لے گی۔۔۔۔۔۔ اب کی بار مینو کے کمزور پڑھ جانے کے امکان زیادہ تھے کیونکہ اب کی بار اسکے قدم ڈگمگانے کے لیے حانی کی محبت بھی موجود تھی۔۔۔ کتنی بڑی حسرت تھی اسکی کہ وہ حانی کی محبت ہو۔۔۔۔اور اب جب وہ حسرت پوری ہونے کا وقت تھا تو جیسے مینو پر ایک بار پھر قسمت نے ہر راستہ تنگ کر دیا۔۔۔۔وہ آج پھر مہران کے روم میں جانے والی تھی۔۔۔مگر اگلے ہی لمحے وہ آہٹ پر چونکی۔۔۔ دانیہ اسکے ساتھ ہی بیڈ کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔
"تم نے ایسا کیوں کیا مینو۔۔۔۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ وہ محض ایک شخص ہے۔۔۔۔۔
پھر آپ اسے حالات سے تنگ آکر کیوں مار رہے ہیں۔۔ روز روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ انسان ایک بار ہی مر جائے۔۔۔دانیہ کوئی ناانصافی ڈیزرو نہیں کرتیں۔۔۔۔۔" اب حانی سمجھا تھا کہ دائم کو بھی دراصل یہی فکر گھول رہی ہے کہ کہیں وہ دانیہ کو مینو سے کم اہمیت نہ دے۔۔۔۔۔ سب کتنے خود غرض تھے۔۔۔ کوئی حانی کا کیوں نہیں سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔
"دانیہ کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کروں گا۔۔۔ تم پریشان مت ہو۔ فل وقت میرا دماغ بند ہے۔۔۔۔صبح بات کرتے ہیں" وہ صاف جان چھڑا کر گیا تھا اور دائم کو اسکا خوب اندازہ تھا۔۔۔۔
"مینو کے ساتھ بھی کوئی ناانصافی نہیں ہونی چاہیے" یک دم اسے مینو کا خیال آیا۔۔۔۔اسے بھی تو وہ بہن کہتا تھا۔۔۔۔۔دائم کے چہرے پر بھی الجھن پھیل چکی تھی۔۔۔۔۔ موڑ ہی ایسا تھا کہ نہ چلتے ہوئے عافیت تھی نہ رک کر کوئی آرام کا لمحہ میسر تھا۔۔۔۔
اور پھر سے جیسے حانی کا دل چلتے چلتے رکا تھا۔۔۔ یہ کیوں سب اسکی ازیت بڑھانے کے در پر تھے۔۔۔۔
"یار تھوڑا وقت تو دو مجھے۔۔۔اب کیا میری جان لو گے سب مل کر" دائم کو لگا وہ بہت تکلیف میں ہے۔۔۔
"حانی بھائی" پھر جیسے دائم نے جاتے ہوئے حانی کی بازو پکڑی۔۔۔
"آپ نے اگر ایک فیصلہ لے لیا تھا تو اس پر قائم رہنا چاہیے تھا" یک دم دائم کو لگا جیسے حانی نے ایسا کوئی گناہ بھی نہیں کیا۔ کیونکہ وہ حانی کی آنکھوں میں بہت سا درد اور تکلیف دیکھ چکا تھا۔۔۔۔
"سب مجھے گرانے پر تلے ہیں۔۔۔۔ تم بھی انکا ساتھ دو" حانی کو اس وقت یہ ہمدردی بھی زہر لگ رہی تھی۔۔۔ جو اسے چاہیے تھی وہ تو اسے خود کے پاس بھی بھٹکنے نہیں دے رہی تھی۔
"میں پتا نہیں کس کے ساتھ ہوں مگر سچ پوچھیں تو مجھے آپکے اس فیصلے کا دکھ پہلے والے سے زیادہ ہوا ہے۔۔۔محبت تو کبھی نہیں مرتی۔۔۔
یہ سب کم ازکم مجھے ٹھیک نہیں لگتا" دائم کے لہجے میں خود کے لیے فکر دیکھ کر اسے اس پر بے حد پیار آیا۔۔
"دائم۔۔۔۔ فکر مت کرو" اسکے چہرے پر ہاتھ دھرے دانیہ بھی اٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔ نیلم اور دائم نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔ دانیہ دونوں کو ہی بے حد اداس لگی تھی۔۔
◇◇◇
دائم کب سے حانی کا منتظر تھا۔۔۔۔ وہ جب سے آیا تھا اسے حانی کہیں بھی دیکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔ ایک بار وہ حانی سے بات کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔۔۔ وہ تو ناجانے اس صبر آزما فیصلے کے بعد کونسی گلیوں کی خاک چھاننے گیا تھا۔۔ آذان بھی آجکل اپنے کاموں میں خود کو مصروف کیے ہوئے تھا۔۔۔ کہیں تو دل لگانا ہی تھا۔۔۔حانی آیا تو لان میں ٹہلتے ہوئے دائم پر نظر پڑی۔۔۔ صبح والا غصہ اب کافی حد تک اتر چکا تھا۔۔۔
"تم کیوں یوں ٹہل رہے ہو" حانی کا چہرہ ہر تاثر سے عاری تھا۔۔۔
پتا نہیں کیا کرنا چاہتے ہیں سب" دائم تو حیران رہ گیا تھا۔
"کیا مطلب۔۔۔۔ کیا تماشا لگا رکھا ہے۔۔۔ جب دل چاہا رشتہ توڑا جب چاہا اپنی من مانی کر لی۔" وہ باقاعدہ غصے میں آتے ہوئے بولا اور اندر جانے کو مڑا مگر نیلم نے اسکی بازو پکڑی۔
"دیکھو دائم غصہ مت کرو۔۔۔۔" وہ کہتی رہ گئی مگر وہ غصے سے اندر چلا گیا۔۔۔ نیلم بھی پیچھے پیچھے چلی گئی۔
"ایک تو یہ جذباتی بندہ کیوں بن رہے ہو تم" وہ بول رہی تھی مگر دائم آج کہاں سننے والا تھا۔۔۔وہ گھر کے اندر آیا تو سامنے کوئی نہ تھا۔۔۔ دانیہ کے کمرے کی طرف بڑھا تو نادیہ، رضوان کی آوازیں بھی وہیں سے آتی سنائی دیں۔۔۔۔ نیلم بھی پیچھے چلی گئی۔۔
"یہ کیا سنا ہے میں نے؟" دائم بے یقینی سے انکے سر پر کھڑے بولا تھا۔۔
"جو سنا ہے ٹھیک سنا ہے" نادیہ تو مطمئین سی تھیں۔۔۔ جبکہ رضوان ضرور چہرے پر فکرمندی لیے تھے۔۔
"دوسروں کا دکھ اور تکلیف بہت آسانی سے جان جاتی ہو تم مینو ۔۔۔۔اور اپنے جذبات اپنے دکھ اپنے احساسات؟؟؟ انکا کیا۔۔ کیا انھیں یونہی بکھیرتی رہو گی۔۔۔ کب تک تم اپنی خوشی پر دوسروں کی خوشی کو فوقیت دیتئ رہو گی۔" مہر کو اب مینو پاگل لگتی تھی۔۔۔۔ اسکا یہ اچھا پن اسے اب بے حد نقصان دے چکا تھا اور دے بھی رہا تھا۔
"شاید میں اسی لیے بنائی گئی ہوں۔" وہ اداس سی تھی۔
"نہیں۔۔۔ تم بھی خوش رہنا ڈیزرو کرتی ہو۔۔۔۔ ایک موقع دو حانی کو" مہر جانتی تھی کہ وہ اپنے فیصلے نہیں بدلتی۔ وہ پھر بھی کہہ رہی تھی۔
"نہیں۔۔۔۔ یہ بھی اب میرے اختیار میں نہیں۔۔ تم بتاو عادی اور حرا کیسے ہیں؟" مینو کو یک دم خیال سا آیا۔
"ٹھیک ہیں دونوں۔۔۔ ہنی مون پر گئے ہیں۔" یہ واقعی آج کے دن کی اچھی خبر تھی۔۔۔ وہ جیسے مسکرائی۔
"بہت اچھی بات ہے۔۔۔ ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔
مینو کی بات پر مہر نے خفا ہوتے ہوئے اسے دیکھا۔۔
"یہ بیوقوفی مت کرو مینو۔۔۔۔۔ محبت بار بار دروازے پر دستک نہیں دیتی" مہر اسے سمجھانا فرض سمجھتی تھی۔۔۔
"کل دانیہ اور حانی کا نکاح ہے۔۔۔۔ میں یہ ظلم شروع کر چکی ہوں مہر۔۔۔۔۔مجھے دانیہ کو انکی امانت لوٹانی ہے۔ ورنہ وہ جی نہیں پائیں گی۔۔۔۔ وہ شاید مجھ سے ہزار گنا زیادہ چاہتی ہیں حانی کو۔ مجھے تو ویسے بھی یہ اذیت برداشت کرنے کی عادت ہے۔ میں دانیہ کے لہجئے اور انکی آنکھوں کا دکھ سمجھ گئی ہوں۔۔۔ وہ بظاہر مجھے حانی دے دیں گی پر وہ نہیں دے پائیں گی۔۔۔۔ انکی محبت مجھ پر ہر شے سے زیادہ مہربان ہے" اب تو مہر واقعی اپنے سامنے بیٹھی اس مینو پر حیران تھی۔۔۔اسے اندازہ تھا کہ مینو بے حد حساس ہے پر کوئی اتنا اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟ اپنی نفی کر کے اپنے اردگرد ہر فرد کو پلس کرنا مینو بخوبی جانتی تھی۔
"اس دن رضی تمہارا پوچھ رہے تھے۔۔ اب کی بار آو گی تو ان سے ضرور ملنا۔۔۔۔ میری اکلوتی دوست سے ملنے کا بہت اشتیاق ہے انھیں" مہر نے آرڈر دیتے کہا تو مینو ہلکا سا مسکرا دی۔ آج وہ دونوں باہر کیفے میں مل رہی تھیں۔۔۔ مینو آج پہلے سے قدرے بہتر لگ رہی تھی۔وجہ یہ تھی کہ آج اس نے ہلکا سا میک بھی کر رکھا تھا۔۔۔ بلو جینز اور ڈارک بلیو لانگ شرٹ اور بال ہمیشہ کی طرح کھلے ہوئے۔۔۔۔۔
"ضرور۔ میرا سلام دینا جیجو کو" وہ بھی بس کہنے کو مسکرائی تھی۔۔۔ مہر اب مینو کے چہرے کی سمت متوجہ تھی۔
"کیوں نہیں۔۔۔۔ تم بتاو کیسی ہو؟ کیا صورت حال ہے اب؟" مہر کے لہجے میں فکر مندی سی در آئی تھی۔۔ مینو نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے آہ بھری۔
"بے حد الجھی ہوئی ہوں۔۔۔ اور الجھے حالات سلجھانے کی کوشش میں ہوں۔۔ حانی کی زندگی سے نکلنے کے لیے خود کو تیار کر رہی ہوں"
"یہ دیکھیں۔۔۔۔ میرے ان بندھے ہاتھوں کو دیکھیے آپ سب۔۔۔۔ کیا میں اس قدر برا ہوں کہ میری ایک غلطی پر آپ سب نے مجھے مجرم بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔بے حد افسوس ہے۔۔۔ مان تو پھر میرا بھی ٹوٹا ہے ۔۔۔۔۔ اب اگر میں تلافی کرنا چاہتا ہوں تو خدا کا واسطہ ہے مجھے کرنے دیں۔۔۔۔ مینو میرا مسئلہ ہے اسے میں خود حل کر لوں گا۔۔۔۔۔ " اب کی بار سب ہی حانی کا دکھ بھرا لہجہ دیکھ کر اداس تھے۔۔۔۔ مہران کو بھی لگا جیسے اب وہ زیادتی کر گئے ہیں۔
"اگر تم واقعی سنجیدہ ہو تو نکاح اس طرح سادگی سے ہرگز نہیں ہوگا۔۔۔ بلکل ویسے ہوگا جیسے طے تھا" آخر رضوان صاحب کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولے۔۔۔
"جو مرضی کرنا ہے کریں۔۔۔۔ لیکن جلدی" وہ دلبرداشتہ سا کہہ کر جانے لگا تو نظر دانیہ سے ملی۔۔۔ جو ساکت اور خفا تھی۔ وہ باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔سب کے ہی چہرے الجھن میں تھے۔۔۔۔
◇◇◇
کیا اب آپ لوگ مجھے میری اس غلطی کے لیے پھانسی چڑھانا چاہتے ہیں؟۔۔۔۔ بابا اور چاچو خدا کے لیے میرا مزید امتحان مت لیں۔ یہ سب میں نے بگاڑا ہے تو میں اسے خود سنوار بھی دوں گا۔۔۔۔ آپ سے بس ایک التجاء ہے کہ براہ مہربانی مجھے یہ کرنے دیں۔۔۔۔" وہ بھی جیسے پھٹ سا پڑا۔۔۔ آنکھیں تو مینو کے ستم کا فیصلہ سننے کے بعد سے اب تک وہشت زدہ تھیں۔۔ اب جیسے مزید خوفناک ہو گئیں۔
"جہاں تک بات رہی مینو کی۔۔۔۔اسکے متعلق بھی فیصلہ جلد ہوگا" وہ جیسے فرار چاہتا تھا۔
"کیا ہوگا وہ فیصلہ تم بتانا پسند کرو گے؟ نکال پھینکو گے اسے زندگی سے بلکل ویسے جیسے زبردستی شامل کیا ہے؟؟؟ اگر تمہارے ارادے اسقدر کمزور تھے تو تمہیں یہ سب کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ تم اس گھر کی عزت سے کھیل رہے ہو" مہران کی ناراضگی تو اب حانی کے لیے ازیت بن رہی تھی۔
پر انھیں حانی کے لہجے پر بے شمار غصہ تھا۔۔۔۔ جیسے وہ کوئی آحسان کر رہا ہے۔
"چاچو پلیز" وہ بمشکل ضبط کر رہا تھا۔
"وہ ٹھیک کہہ رہا ہے ۔۔۔ ہم لوگوں کو کیا جواب دیں گے۔ ابھی تو بھائی صاحب کی صحت کا بہانہ کر رکھا ہے۔ اگر حانی اپنی غلطی سدھارنا چاہتا ہے تو اسے کرنے دیں" نادیہ کا دل تو دانیہ کی خوشی ہی چاہتا تھا۔ ماں جو تھیں۔۔۔
"کیوں۔۔۔۔ زندگی کھیل تماشا سمجھ رکھی ہے تم نے۔۔۔کیوں ہم تمہاری اتنی بڑی غلطی معاف کریں۔۔۔اور یہ جو سب ٹھیک کرنے کا دعوی کر رہے ہو تم، یہ بتاو کہ مینو کا کیا قصور تھا۔ اسے تم کس بات کی سزا دو گے۔ اسکی زندگی کا تماشا بنانے کا حق کس نے دیا تمہیں" اب کی بار مہران غصہ لیے اسکے روبرو آئے۔۔۔ اور وہ جیسے ہار سا گیا۔۔۔
"قصور کسی کا بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں ہوں فساد کی جڑ۔۔۔۔ فار گارڈ سیک۔۔۔۔
مگر یہاں تو سب نے ہر تعلق ہی ختم کر دیا۔۔۔۔۔خیر جو ہو گیا وہ ہوگیا۔۔۔۔ " وہ کچھ لمحے کو رکا۔۔۔ سب کی نظریں حانی پر تھیں۔
"تم آخر کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ معافی کس لیے دیں تمہیں۔۔۔ کم نقصان نہیں کیا تم نے ہم سبکا" مہران اب کی بار غصے سے بولے تو وہ بے بسی سے آہ بھر کر رہ گیا۔
"جی بہتر۔۔۔۔۔ جو شادی بقول آپ سبکے میری خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے میں اسکے لیے تیار ہوں۔۔۔ آج یا کل نکاح ہو جائے گا" اب تو سب ہی پھٹی نظروں سے اسکی جانب تھے۔۔ وہ اٹھ چکا تھا۔۔۔ رضوان اسکی سمت آئے۔ انکی آنکھوں میں بھی غصہ تھا۔۔۔
"جو رشتے خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیے جائیں وہ ختم ہو جاتے ہیں۔۔۔ تم کیسے وہ سب دوبارہ چاہ رہے ہو۔ ہر چیز تمہاری مرضی سے نہیں ہوگی۔ تمہاری زندگی میں اب نہ دانیہ رہے گی اور نہ ہی مینال" وہ اندر سے تو یہی چاہتے تھے
اب کیا کہنا ہے تمہیں۔ کس لیے تم نے سب کو جمع کیا ہے؟" حانی نے ناشتے کی میز پر سبکو جمع ہونے کا کہا تھا۔۔۔مہران نے ایک خفا اور ناراض نظر بے حال سے بیٹھے حانی پر ڈالے کہا۔سب ہی موجود تھے سوائے دائم اور مینو کے۔۔۔ دائم آجکل آفس جا رہا تھا کیونکہ حانی دو تین دن سے گھر تھا لہذا اسے ہی آفس دیکھنا پڑھ رہا تھا جبکہ مینو کہ اندر شاید ابھی سبکا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
"سب سے پہلے میں اپنی غلطی کے لیے معافی مانگتا ہوں۔۔ میں نے جس جس کی دل آزاری کر دی ہے براہ مہربانی دل بڑا فرمائیے" اسکے لہجئے میں تلخی سئ شامل تھی مگر وہ بے حد نڈھال تھا۔ رات مینو کی سزا اور اسکا گریز ابھی تک اسکی روح چھلنی کر رہے تھے
"میں تو سمجھا تھا یہاں سب میرے اپنے ہیں۔ اگر میں کوئی فیصلہ لوں گا جو آپکی مرضی کے الٹ ہوگا تو میں جلد آپ سبکو منا بھی لوں گا۔۔۔
شاید آج وہ مقام تھا کہ حانی دھاڑ دھاڑ کر ہر شے تہس نہس کر دیتا مگر خود کو مینو سے دور ہونے نہ دیتا۔۔۔ کمرے کا دروازہ لاک کیے وہ واپس مڑی۔۔۔
"آپ دانیہ کی امانت ہیں۔۔۔ خدارا مجھ سے دور رہیں۔۔آپ کی یہ قربت مجھے نڈھال کر دیتی ہے۔ میرا سارا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مجھے میرے فیصلے پر قائم رہنے دیں حانی۔آپ کو دانیہ کے حوالے کر کے مینو آپکی زندگی سے نکل جائے گی" اپنی آنکھوں میں آئی نمی بے دردئ سے صاف کیے وہ خود کلامی کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی بے آواز آنسو اس چہرے کا دکھ بنتے رہے۔
◇◇◇
اگر تم نے مجھ سے دور ہونے کا سوچا تو یہ ہم دونوں کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔۔۔تم مجھ سے میری خوشی الگ مت کرنا مینو۔ تم میرے کیے کی اتنی دردناک سزا نہیں دے سکتی۔اگر تمہیں میری تکلیف دیکھ کر سکون ملے گا تو ٹھیک ہے۔ میں تیار ہوں دانیہ سے شادی کے لیے" وہ خطرناک حد تک سنجیدگی لیے تھا۔مینو خوفزدہ ہوئی۔وہ آنکھیں اذیت اور تکلیف سے بھری ہوئی تھیں۔۔۔۔
"گڈ۔۔۔ اب آپ جاسکتے ہیں" رخ پھیرے وہ ایک اور حکم سناتے بولی۔ وہ تو اسکے ایک کہ بعد ایک ستم سے نڈھال ہو رہا تھا۔۔ اس سے پہلے کے وہ مینو کے قریب آتا وہ پھر سے پلٹی۔۔۔
"جائیں حانی۔۔۔۔۔ لیو" اب تو بس زبردستی اسے کمرے سے باہر نکالنے کی کسر باقی تھئ۔۔۔۔ وہ چلائی تھی۔۔ حانی کے بڑھتے قدم تھمے اور وہ ایک تلخ نظر مینو پر ڈالتا ہوا باہر نکل گیا۔۔شاید پتھر بھی ٹوٹ گیا تھا۔
وہ غصے سے حانی کو دیکھتی بولی جو اب بے جان ہوتا محسوس ہوا تھا۔
"میں تم کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا مینو" ایک ڈر اور خوف تھا جو حانی کی آنکھوں میں تھا۔۔اسکا چہرہ تھامے وہ اسے خود میں سمیٹ لینا چاہتا تھا۔۔ مینو کی ڈھرکن تھمی۔
"میں دانیہ کو اپنانے کی بات کر رہی ہوں اور وہ بھی پورے حقوق و فرائض کے ساتھ۔۔۔۔" مینو نے جیسے اسکی درستگی کی۔۔۔ اب کی بار وہ اسے بازو سے پکڑے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔۔۔۔ مینو کو لگا اب تو واقعی اسکی ڈھڑکن تھم جائے گی۔۔
"تم بہت ظالم ہو۔اگر اسکے بعد بھی تم نے مجھ سے دور ہونے کا فیصلہ سنا دیا تو؟" وہ مسلسل اسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے اسکی بات پر ساکت ہوئی۔
"وہ بعد کی بات ہے حانی۔۔۔ چھوڑیں مجھے۔ کہا ہے نا دور رہیں" حانی نے اسکی خفگی دیکھتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔۔۔آنکھوں میں تو مینو کے خون اتر آیا تھا۔۔۔۔
آنکھوں میں شدید خفگی ،ناراضگی، اور تکلیف وافع تھی۔ سانسیں تھکن آلود تھیں کہ گویا بمشکل چلنے پر راضی ہوں۔
"ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ سمجھی تم" آنکھوں میں بغاوت لیے وہ اب اس پر چلایا تھا۔
"ہوگا۔۔۔ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔ورنہ میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ اس گھر کو چھوڑ کر چلی جاوں گی۔۔۔۔ پھر آپ میری شکل تو کیا، میری آواز تک نہیں سن پائیں گے۔" آج پہلی بار اس نے خود کو، یعنی حانی کی سب سے بڑی کمزوری کو استمال کیا تھا۔۔۔۔حانی کو وہ اب ظالم لگی تھی۔۔۔۔۔ اور اسکی آنکھوں کی بے خوفی بھی وہ وافع دیکھ سکتا تھا۔
"تم مجھے مجبور نہیں کر سکتی" اسکے قریب ہوتا ہوا وہ ایک بار پھر سختی سے بولا تھا۔۔۔۔مینو نے دونوں ہاتھوں سے اسے دور دھکیلا۔۔۔ وہ بھی بس دو قدم۔۔
"میں کر سکتی ہوں۔۔ اور سنبھال کر رکھیں اپنا یہ غصہ۔ مینو نہیں ڈرتی آپ سے۔۔۔۔اب فیصلہ کرنے کی باری میری ہے"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain