Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

سزا سنانے کا وقت آگیا ہے حنوط مرتضی " وہ اپنی نیلی آنکھیں پھیلائے اسکا چہرہ دیکھتے بولی۔
"ہمم۔۔۔ ابھی میری ہمت نے جواب نہیں دیا۔ تم سزا نہیں سنا سکتی" سنجیدہ اور بے بس سی التجاء آئی تھی۔
"میں سناوں گی اور آپ مجھے نہیں روک سکتے۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ میری ہر سزا قبول کریں گے۔ کیونکہ مینو کی ہمت اتنی ہی تھی" وہ یک دم تلخ ہوئی۔
"سناو" حانی اسکے روبرو مجرم بنا کھڑا تھا۔۔۔ ایک لمحے کو تو مینو کا حوصلہ بھی ڈگمگایا تھا مگر اسے فل وقت کمزور نہیں پڑنا تھا۔۔۔
"آپ دانیہ سے شادی کریں گے اور یہ شادی کل ہی ہوگی" مینو کا ظالم فیصلہ تو گویا حانی کو بھی کچھ لمحے کو پتھر کر گیا۔۔۔ وہ زور دار طریقے سے اسے بازو سے پکڑے دیوار سے لگا چکا تھا۔۔پکڑ اتنی شدید تھی کہ مینو کو حانی کی انگلیاں بازو میں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں۔۔۔

anusinha
 

وہ دل میں اپنا ارادہ کر چکی تھی۔۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر محبت تلے دب کر اپنے ساتھ ایک بڑا ظلم کرنے والی تھی۔۔۔۔
◇◇◇
حانی رات دیر سے ناجانے کہاں کہاں کی خاک چھاننے کے بعد لوٹا تھا۔۔۔۔ لان سے مینو کے کمرے کی لائیٹ دیکھی تو اسکے روم کی طرف چلا گیا۔۔۔۔۔ شاید ایک اور کوشش کرنے۔۔۔ سب شاید اپنے اپنے کمروں میں سونے جا چکے تھے۔۔۔حانی نے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ فورا کھل گیا۔۔ ۔۔وہ اسے سامنے ہی پشت کیے کھڑی دیکھائی دی۔۔۔
"مینو" وہ جیسے اسکی آواز پر پلٹی تھی۔ حانی کا چہرہ یک دم تاریک اور تھکا ہوا تھا۔۔
"آپ آگئے۔۔۔ امید تھی کہ ضرور آئیں گے۔ تبھی یہ دروازہ آج آپ پر کھلا ہوا تھا" وہ جیسے احسان عظیم کرتی ہوئی اس بے حال شخص کو دیکھ رہی تھی جو اب سنجیدہ تھا۔
"مینال پلیز" وہ اسکے قریب ہوا تو وہ کچھ دور ہٹی۔۔ چہرے پر بلا کا گریز وافع تھا۔

anusinha
 

" ایک حسرت تھی جو دانیہ کے لہجئے میں تھی۔
"نہیں۔۔۔۔ میں اسے صرف خود غرضی سمجھتی ہوں۔۔۔ مینو آپ دونوں کے بیچ کبھی نہیں تھی نہ آئے گی" ایک بار پھر دل کو زخم دیتی ہوئی وہ دانیہ سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔
"مینو۔ دانیہ تمہارے لیے جان بھی دے سکتی ہے۔ وہ تو محض ایک انسان ہے۔۔۔۔معاف کر دیا میں نے تمہیں۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ مینو کبھی مجھے دکھ نہیں دے سکتی" اور ان گزرے دنوں کی تکلیف یک دم کم ہوئی جب دانیہ نے اسے خود سے لگایا۔۔۔۔ اب مینو کے ظرف دیکھانے کی باری تھی۔۔۔۔
"آپ روئیں گی نہیں" اس سے الگ ہوتے ہی مینو نے دانیہ کا بوجھل چہرہ تھامے کہا جسے خود حوصلے کی شدید ضرورت تھی۔
"میں ایسا ہی کروں گی دانیہ۔۔۔۔ آپکی محبت کے بنا مینو جی نہیں سکتی۔۔۔۔۔ حانی کو خود سے دور کرنے کا جبر کرنا ہوگا۔۔۔ مجھے حانی کی زندگی سے نکلنا ہوگا۔۔ دانیہ کی محبت کا بدلا یہی ہے"

anusinha
 

وہ مجھے اپنی زندگی سے نکال دیں" مینو کسی بھی قیمت پر دانیہ کی ناراضگی دور کرنا چاہتی تھی۔
"وہ تمہیں اتنی آسانی سے نکال دے گا کیا؟" دانیہ کا لہجہ سوالیہ تھا۔ مینو کے دل کی ڈھرکن تھم سی گئی۔۔۔
"جس طرح زبردستی وہ مجھے اپنی زندگی میں شامل کر چکے ہیں، میں بھی ویسے ہی نکل جاوں گی" مینال نے لڑکھڑاتی آواز پر مکمل قابو پاتے کہا۔۔۔۔ دانیہ نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔۔۔۔۔
"مینو ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔۔۔۔ تم دانیہ کی جان ہو۔ اور ہمیشہ رہو گی۔۔۔۔ دکھ تو میرا بھی بڑا ہے نا۔۔۔۔ تھوڑی توڑ پھوڑ تو فطری تھی ناں۔۔۔۔ تم مجھے عزیز رہو گی بھلے کچھ بھی ہو جائے" یک دم جیسے دانیہ کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔۔
"دانیہ روئیں مت۔۔۔۔میں آپکی اس تکلیف کو بہت جلد ختم کر دوں گی" وہ اپنی تکلیف ایک بار پھر نظر انداز کر رہی تھی۔
"میں حانی سے محبت کرتی ہوں۔ مگر وہ تمہیں چاہتا ہے"

anusinha
 

سب کچھ اس نے بگاڑا ہے تو اب سنوارنے کی ہمت بھی وہی لائے گا۔۔۔۔۔۔ دانیہ کی شادی حانی سے ہی ہوگی۔ آج میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں" اب تو رضوان بے یقین سے انکی سمت دیکھ رہے تھے۔
"مگر بھائی۔۔۔۔ مینو" مینو کے لیے الگ دونوں کے دل دکھے ہوئے تھے۔ دل کا ٹکڑا جو تھی دونوں کے۔۔۔۔
"اسکے متعلق جو سوچنا ہے وہ ہم بعد میں سوچ لیں گے۔۔۔۔ فل وقت تم اتنا جان لو" پھر جیسے وہ وعدہ دیتے ہوئے ایک بار ساکت ہوئے۔۔۔
"ایک بیٹی سے اسکی خوشی لے کر دوسری کو دینا واقعی ایک صبر آزما فیل ہے۔۔۔۔یہ سب اس رب کی کوئی مصلحت ہوگی۔۔۔ ہمیں ہمت کرنی ہوگی" اب کی بار وہ اپنا درد بھلائے بس رضوان کی پریشانی کم کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔
"بھائی میں بے حد پریشان ہوں۔۔۔۔۔۔" رضوان صاف گوئی سے ہارے ہوئے بولے۔
"مت پریشان ہو۔۔۔۔۔ سب بہتر ہوگا۔۔۔" مہران نے اسے کچھ مطمئین سا کر دیا تھا

anusinha
 

اس مسئلے کو یونہی نہیں چھوڑا جا سکتا رضوان۔ کوئی تو حل نکالنا پڑے گا" مہران صاحب نے بھی جیسے اپنی خاموشی توڑی۔ رضوان انکے روبرو پریشان سے بیٹھے تھے۔
"کیسا حل بھائی۔۔۔ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا" ویرانی لیے وہ بولے تو جیسے مہران کو ایک بار پھر حانی کی حرکت پرافسوس ہوا۔
"اسی کو دوراہا کہتے ہیں رضوان۔۔کہ نہ آر ہونا ممکن ہے اور نہ پار۔ ہم نا چاہتے ہوئے بھی ناپسندیدہ فیصلہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔۔۔۔ زندگی نے ہمیں بھی ایسے ہی موڑ پر لا پٹخا ہے۔۔۔۔ ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف کوئی اور دہکتا دکھ۔۔۔۔۔" رضوان نے دیکھا کہ مہران کا لہجہ نم سا تھا۔۔۔
"بھائی, حانی نے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔ اسے برا کہوں تب بھی دل دکھتا ہے۔۔۔۔ پرایا تھوڑی ہے۔۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ انسان ان حالات میں خود کا خاتمہ نہ کرے تو اور کیا کرے" رضوان یک دم مایوس تھے۔

anusinha
 

مینو کو بھی اس تکلیف کا حصہ بنا کر اسے دکھ دیا تم نے۔۔۔۔۔" یہ پہلا فرد تھا جو مینو کے لیے بولا تھا۔۔۔۔ حانی نے ایک نظر دانیہ کو دیکھا۔۔۔۔
"میں سب کے لیے ہی باعث تکلیف بن گیا ہوں" کپ زمین پر رکھتے وہ جیسے آہ بھرتے بولا تھا۔۔۔
"میں ہر ممکن مداوا کروں گا۔۔۔۔ تمہاری تکلیف کا بھی اور مینو کی تکلیف کا بھی۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ وقت دو" پھر جیسے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ دانیہ اسے جاتا دیکھتی رہی۔۔۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔" مینو کی بے بسی کے آگے کچھ پل حانی کی ڈھرکن تھم گئی تھی۔
"نکال دیا تو مر جاوں گا۔۔۔۔ کیا پھر بھی مینو؟" وہ اس نے خاموش التجا کر رہا تھا۔۔۔ اور وہ کمزور پڑھ رہی تھی۔۔۔
"آپ سے بات کرنا ہی فضول ہے" وہ فرار ہی چاہتی تھی۔۔۔۔ اور یہی وہ کرتی آئی تھی۔۔۔۔۔ مقابل کے چہرے پر جیسے اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔۔
"بات تو کرنی ہوگی" اب کی بار وہ اسے کندھوں سے پکڑے روک چکا تھا۔۔۔۔
"آپ نے میرے قریب آنے کی کوشش بھی کی تو میں اپنی جان لے لوں گی حانی" حانی بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا جو ایک بار پھر رو دینے والی تھی۔۔۔ وہ کچھ دور ہوا۔۔۔۔اور ایک بے بس سئ نظر مینو پر ڈالے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔ اور وہ وہیں گرنے کے انداز میں بیٹھی۔۔۔۔۔ اپنی اس تکلیف سے گویا اسے نجات ملنی ناممکن تھی۔
◇◇◇

anusinha
 

اور وہ نظر حانی کے آر پار ہو گئی تھی۔ کیسا مرجھا گیا تھا وہ چہرہ۔۔۔ حنوط کو خود پر افسوس ہوا۔
"چھوڑیں مجھے" وہ شدید غصے سے بازو چھڑواتے بولی تھی۔
"مجھ سے بات کرو پلیز۔۔ تمہاری یہ بے رخی مجھے مار رہی ہے۔" وہ یک دم لاچار سا لگا۔
"نہیں کرنی مجھے آپ سے کوئی بھی بات۔۔۔ نفرت ہوگئی ہے مجھے خود سے اور حانی آپ سے۔ آپ نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔۔۔ میرے سارے اپنے۔۔۔۔ یہی چاہتے تھے نا آپ۔۔۔ سب کی نفرت میرے حصے میں ڈال کر خوش ہیں آپ ۔۔ نہیں چاہیے مجھے ایسی محبت جو اتنے خساروں کے ساتھ جڑی ہو۔ مجھے یہ سودا منظور نہیں" آخری بات پر مینو کی آنکھیں نم ہوئیں اور لہجے میں شدت آئی۔ دو دن کی ساری بھڑاس مینو نے نکال باہر کی تھی۔۔۔
"تمہارے نزدیک یہ سودا ہے؟؟؟؟
اور کیا صرف تمہارا خسارہ ہوا ہے" وہ تلخی لیے بولا۔۔۔
"پلیز حانی۔۔۔۔ مجھے اپنی زندگی سے نکال دیں۔

anusinha
 

وہ تب اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔ پھر وہ آفس چلا گیا تھا۔۔۔۔ وہ کسی طرح مینو سے بات کرنا چاہتا تھا مگر وہ اسے صرف تکلیف ہی دے پاتا تھا۔۔۔۔۔ وہ اپنے روم کے ٹیرس پر تھی۔۔۔اور اتفاق سے مینو کے کمرے کا دروازہ بھی لاک نہیں تھا۔۔۔۔ مینو آہٹ پر مڑی تو آنکھوں میں شدید غصہ ابھرا۔۔۔
"آپ کی ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی" وہ بھی کسی زخمی شیرنی کی طرح اس کی جانب لپکی تھی۔۔۔۔ وہ آج کچھ بہتر دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔ مینو کی دونوں بازو وہ مضبوطی سے پکڑ چکا تھا۔۔۔ اور وہ اسکی اس دلیری پر پتھر بن چکی تھی۔ اپنی پوری قوت سے وہ بازو چھروانے میں کامیاب تھی۔ کیونکہ اس بار حانی نے خود ہی گرفت ڈھیلی کر دی تھی۔
"مینال۔۔۔۔ مینال میری بات سنو" اسے پھر سے بازو سے پکڑے اپنے روبرو کرتے باقاعدہ چلایا تھا۔ مینال کی آنکھیں ایک دم سوجھ چکی تھیں۔

anusinha
 

اور جیسے مہران کی بند آنکھوں میں بھی لرزش آئی تھی۔۔۔۔ دل تو انکا چاہا تھا کہ وہ مینو سے بات کریں مگر شاید انکے اندر حوصلہ نہیں تھا۔۔۔۔
"مجھ سے بات کریں نا" وہ شاید مزید رکتی تو اسکا رہا سہا ضبط بھی ہوا ہو جاتا۔۔۔۔ فورا سے باہر نکلی۔۔۔ نظر سامنے کھڑے حانی پر گئی تو جیسے رونے کی شدت میں مزید اضافہ ہوا۔۔۔۔ وہ بھی اسکے پیچھے نکل گیا۔۔۔۔۔ مہران صاحب کی آنکھیں کھل گئیں۔۔۔ سرخ لال آنکھیں۔۔۔۔۔
"مجھے معاف کر دو مینو۔۔۔۔جانتا ہوں کوئی قصور نہیں ہے تمہارا۔ لیکن تمہارے بابا فل وقت کسی بات کی کنڈیشن میں نہیں ہیں" چہرے پر ڈھلکے آنسو پونچھتے ہوئے وہ دکھ لیے خود کلامی کر رہے تھے۔
◇◇◇

anusinha
 

"آپ بھی اپنی مینو کو غلط سمجھ رہے ہیں" انکی اس بے رخی پر وہ روہانسی ہوئی۔۔۔
"آپ جانتے ہیں نا میں ایسی نہیں ہوں۔۔ مجھے دیکھیں۔ مجھ سے بات کریں نا ہنڈسم" اب کی بار جیسے وہ اپنی لرزتی اور بھیگی آواز میں بولی تھی۔۔۔حانی دروازے میں کھڑا تھا۔۔۔۔ شاید یہی مقام اسکے ڈوب مرنے کا تھا۔۔۔۔۔
"آپ مجھے جو سزا دیں گے مجھے منظور ہوگی۔۔مگر ایسے مت کریں۔ آپکی یہ بے رخی مینو نہیں سہہ سکتی" اب کی بار وہ انکا ہاتھ تھامے تھی۔۔۔۔ وہ تو شاید ناجانے کیسے ضبط کیے ہوئے تھے۔۔
حانی کو بھی اب بابا کی سنگ دلی پر تعجب ہوا۔۔۔
"آپ نے کہا تھا نا کہ آپ میرے بابا ہیں۔۔۔ تو کیا آپ ایک بار مجھے بولنے کا موقع نہیں دیں گے۔۔۔۔۔۔آپ کہیں گے تو مینو یہاں سے بہت دور چلی جائے گی۔۔۔۔۔ سب کی زندگیوں سے دور۔۔۔ لیکن کچھ بولیے۔ بھلے مجھے برا بھلا ہی کہہ لیجئے" وہ رو سی دی۔۔

anusinha
 

سب سے زیادہ دکھ ہی تو مینو کو حانی کی بے حسی نے دیا تھا۔۔۔۔ یہ کیسی محبت تھی جس نے اسکو اسقدر رنج میں مبتلا کر دیا تھا۔۔۔ اتنا تو شاید وہ ان چھ سالوں میں نہیں روئی تھی جتنا ان دنوں رو چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔اسے خود پر افسوس تھا کہ یہ آنسو بھی ختم نہیں ہو رہے۔۔۔۔ آنسو تھم جاتے تو دل دہکتا ہوا شعلہ بن جاتا۔۔۔۔۔ مہران کا سامنا تو شاید مینو کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔۔۔۔۔ اسے انکی اس بے رخی کی سب سے زیادہ تکلیف تھی۔۔۔۔۔ مہران کے کمرے کے باہر کھڑی وہ اپنے بے قابو آنسووں کو لگام ڈال رہی تھی۔ کیسے وہ اس پیارے باپ جیسے تایا کا سامنا کرے جن کی نظریں اسکی وجہ سے جھک گئی تھیں۔۔۔۔ مگر اسے پہل کرنی ہی تھی۔۔۔ دروازہ کھولے وہ اندر چلی گئی۔۔۔۔ اور وہ آنکھیں کھولے کسی گہری سوچ میں تھے، اسے دیکھتے ہی آنکھیں بند کر گئے۔۔۔۔۔ چہرہ تو انکا بھی تکلیف کا رنگ لیے تھا

anusinha
 

پھر وہ اس سے کیسے ناانصافی کرتا جو اسکے نام لگ کر ہی اسقدر نہال تھی۔۔۔وہ بھی اسکا سیل بند کیے اسے تھما رہی تھی۔۔۔۔ اور عادی کی کھوئی ہوئی نظریں دیکھ کر حیران بھی تھی۔۔۔۔۔
"آج ڈنڑ باہر کریں" شوہر صاحب نے پہلی بار آفر کی تھی تو وہ کیسے رد کرتی۔۔۔۔ فورا سر ہلائے مسکرا دی اور چینج کرنے چلی گئی۔ اور وہ بھی جیسے دوبارہ سنجیدگی اوڑھے صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔۔۔۔
◇◇◇
گھر کے ہر فرد نے جیسے مینو سے کنارہ کر لیا تھا۔۔۔۔کوئی اس سے بات کرنا تو دور اسے دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔ سب کی نظروں میں خود کے لیے غصہ، ناراضگی اور نفرت دیکھ کر اسکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔۔۔ کیا وہ واقعی اتنی بدقسمت ہے کہ ہر طرف سے رد کر دی جاتی۔۔۔۔۔ وہ بھی تو نڈھال تھا۔۔۔۔۔کیا کرے کہ سب ٹھیک ہو جائے۔۔۔۔ یہی سوچ سوچ کر اسکا دماغ بند ہو رہا تھا۔۔

anusinha
 

"میں جانتا ہوں مینو جب تم یہ جانو گی کہ یہ حقیقت میں نے حانی تک پہنچائی ہے تو شاید تم مجھ سے ناراض ہو جاو۔۔ بدگمان اور بے یقین بھی ہو سکتی ہو۔۔۔ لیکن عادی کو اب سب گوارا ہے مگر تمہاری تکلیف ہرگز نہیں۔۔۔ میں تمہارے لیے اور تو کچھ نہیں کر سکا مگر اپنی طرف سے یہ ایک کوشش کی ہے۔ تمہیں ایک دن یہ سچ ضرور بتائے گا عادی" آئینے میں خود پر نظریں جمائے وہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔ یہ محبت بھی دھنک جیسے رنگ رکھتی ہے۔۔۔ کوئی تیکھا رنگ لیے بس سب پا جانے کی دھن میں ہوتا ہے اور کوئی مدھم رنگ بن کر اپنی محبت اسی مدھم طریقے سے امر کر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ عادی کے دل میں تھوڑا سا اطمینان آگیا تھا۔۔۔۔۔۔مڑ کر دیکھا تو نظر اس لڑکی پر جا رکی جو بنا صلے کی چاہ اسکے ساتھ جڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ساتھ یوں ناانصافی اب اسے کچھ زیادہ لگی۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ہمیشہ سے ہی انصاف پسند تھا۔

anusinha
 

ایک دم نڈھال ہو گئی ہے وہ" عادی جانتا تھا کہ یقینا نڈھال ہی ہوئی ہوگی۔۔۔۔ وہ ایسی ہی تو تھی۔۔۔ پاگل سی۔۔ خود اپنی خوشی پر بھی نڈھال ہو جانے والی۔۔۔
"ٹھیک ہو جائے گی۔ تم اسکے ساتھ رابطے میں رہنا۔ اور ملتی رہنا۔ " عادی کی فکر مندی عیاں تھی۔
"ان شاء اللہ کیوں نہیں۔۔۔۔ اتفاق سے حمدان حویلی سے ہمارے گھر کا راستہ بھی ایک گھنٹے کا ہے۔۔۔۔ یہ آسانی ہو گئی ہے" مہر مطمئین سے انداز میں تھی۔۔۔
"چلو یہ تو اچھا ہے۔۔۔" عادی بھی مطمئین سا ہوا۔
"خیر تم بتاو، حرا کو کہیں لے کر بھی گئے ہو یا ابھی تک گھر ہی جلے کٹے بیٹھے ہو دونوں" مہر کے کہنے پر عادی نے کمرے میں آتئ حرا کو دیکھا۔۔۔۔ وہ بھی یہیں متوجہ تھی۔
"لے جاوں گا۔۔۔۔ لو کر لو بات" فون حرا کو دیتے ہوئے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔ وہ دونوں باتوں میں لگ چکی تھیں۔۔

anusinha
 

"کیا واقعی" مہر کی بات تو واقعی نا قابل یقین تھی مگر ناجانے کیوں عادی کو لگا جیسے اسکے اندر کی بے چینی یک دم کم ہوئی تھی۔
"ہاں۔۔۔۔ بہت رو رہی تھی۔۔ کہ سب غلط ہو گیا ہے۔ وہ کسی کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی وغیرہ۔۔۔ میں تو یہ سوچ رہی ہوں کہ یہ بات حانی کو آخر پتا کیسے چلی" مہر خود حیران تھی اور وہ دوسری طرف لمحہ بھر کو پھر بے چین ہوا۔
"مجھے حانی سے یہی امید تھی۔ وہ مینو کو سمیٹ لے گا" عادی دل میں سوچ رہا تھا۔
"جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے مہر۔۔۔ اس میں بھی کوئی بہتری ہے" عادی فل حال یہ بات کسی کو نہیں بتانا چاہتا تھا۔۔۔ کسی بھی طرح وہ بس اب مینو کی خوشیاں چاہتا تھا۔۔۔ بھلے اس نے مینو کا راز فاش کر کے بہت غلط کیا تھا پر اسکے پیچھے عادی کی نیت بہت اچھی تھی۔۔۔۔۔
"ہاں نا۔۔۔۔ اب بس تم دعا کرو کہ وہ ان حالات سے اچھے سے نکل آئے۔۔

anusinha
 

کیا ابھی آخری حد نہیں آئی آپکی" وہ اسکی گرفت میں ہی رو سی دی۔ دل تو جیسے پہلے ہی سے بھرا جا رہا تھا۔
"یہی تو کہہ رہا ہوں کہ مجھے اپنا مرہم بننے دو۔" ایک تھکی سی درخواست آئی تھی۔۔۔۔مینو کا رونا کچھ دیر تھم سا گیا۔
"آپ جیسے مرہم نے پہلے ہی مینو کی جان لے لی ہے حانی۔ مجھے مزید خود اپنی نظروں میں مت گرائیں" حانی کی گرفت جیسے ایک پل کو ڈھیلی پڑی۔۔۔۔آنکھیں بھی ویرانی لیے نم سی تھیں۔
"مینو میرا ساتھ دو پلیز" التجا قائم تھی۔
"اب صرف سزا دوں گی" وہ اسکی ڈھیلی گرفت سے اپنی بازو چھراتے دکھ سے بولی۔
"مینو " اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا وہ وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔ حانی سے گویا وہ بھی ابھی تک بے حد دور تھی۔۔۔ وہ خود کو اب واقعی کوئی ناکارہ چیز ہی سمجھ رہا تھا۔۔۔۔۔ جس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں رہا تھا
◇◇◇

anusinha
 

وہ شاید ٹیکسی سے ہی گئی تھی اور ٹیکسی سے ہی واپس آئی تھی۔۔۔۔۔ اندر انٹر ہونے کی دیر تھی کہ سامنے ہی اسے وہ پتھر دیکھائی دیا۔۔۔ مینو کو دیکھتے ہی وہ دیوانہ وار اسکی جانب لپکا۔۔۔۔۔۔۔مینال اسے برے طریقے سے نظر انداز کرتی جیسے ہی آگے بڑھی، حانی نے اسکی بازو پکڑے اسے روکا۔۔۔۔ جس پر اس نے کاٹ کھانے کے انداز میں حانی کی سمت دیکھا۔
"تم کہاں تھی؟ فون بھی بند تھا۔ زرا احساس ہے تمہیں کہ کم ازکم تم تو یہ ٹارچر کرنا بند کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ بے حد عاجز اور سنجیدہ تھا۔۔۔
"یہی اب آپکا مقدر ہے۔۔۔۔ اور چھوڑیں مجھے" وہ غصے کی انتہا پر تھی مگر گرفت کوئی عام نہیں تھی۔۔۔ وہ اسکا بجھا اور تھکا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔
"مینو تمہیں سمجھ نہیں آرہی؟" گرفت جیسے مزید تیز ہو کر اسے تکلیف دینے لگی۔
"بے حس انسان ہیں آپ۔۔۔۔ مجھے اور کتنی تکلیف دیں گے۔

anusinha
 

میری ان سے ہونے والی محبت غرق ہو گئی۔۔۔۔ "یک دم جیسے پھر سے وہ آنکھیں برس گئیں۔۔۔
"ایسے مت کرو۔۔۔۔ خود کو اتنا مت تھکاو۔۔۔ حالات کو اپنی چال چلنے دو میری جان۔۔۔۔۔" مہر اب کی بار دھیمی ہوئی تھی۔
"یہ حالات بس میری جان لے کر دم لیں گے۔ کاش میں نہ ہوتی۔۔۔ ناجانے کتنے دل توڑے ہیں جنکی یہ سزا ملی ہے۔۔ اسقدر نفرت کی صورت میں۔۔۔۔۔" وہ زرا بھی ٹھیک نہیں تھی۔۔۔۔ مہر کی بھی افسردگی مزید گہری ہوئی۔۔
"بس کرو۔۔۔۔۔ چلو آو کھانا کھاتے ہیں۔ مجھے امید ہے اس سب سچویشن میں تم نے کچھ نہیں کھایا ہوگا" مہر اب اسکا چہرہ تھامے تھی۔۔۔ اسکی تو جیسے بھوک اور پیاس دونوں مر گئی تھیں مگر مہر نے اسے کھائے بغیر نہیں جانے دیا تھا۔۔۔۔
◇◇◇