Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

"وہ صرف سب تباہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ " وہ یک دم غصہ ہوئی۔
"حالات کو سدھرنے کا موقع دو مینو۔ امید رکھو کہ سب بہتر ہو جائے گا۔ جب تم جانتی ہو کہ تم بے قصور ہو تو یوں خود کو اذیت مت دو۔۔۔۔۔ امید رکھو کہ سب بہترین ہی ہوگا" مہر کی بات اب اسے مزید اداس کر گئی۔۔۔
"مجھے سبکی نفرت نہیں لینی۔ نہ ہی یہ میں سہہ پاوں گی۔ دانیہ کی تو مجھ میں جان بستی ہے۔ اور کیسے میری وجہ سے انکی جان پر بن آئی۔۔۔۔۔ حانی نے اپنے ساتھ ساتھ میرے لیے بھی ایک عمر کا رونا لکھ دیا ہے" مہر یک دم چونکی۔۔۔
"مینو۔۔۔۔۔۔ کیا وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ اتنا بڑا قدم کوئی یونہی نہیں اٹھاتا" مہر نے کہا تو جیسے مینو کی خاموشی بول اٹھی۔۔ ۔
"مینو۔۔۔۔۔ حانی کی محبت ٹھکرانے کی غلطی مت کرنا۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے یہ تمہارے صبر کا پھل ہو۔۔۔۔" اب کی بار مینو باقاعدہ شکایت لیے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔

anusinha
 

۔یوں تمہیں تکلیف دے کر تمہارے جذبات کو ہرٹ کر کے اسے تمہیں اپنا بنانا نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔" مہر بھی متفق سی تھی۔
"میں بلکل اکیلی ہو گئی ہوں۔۔۔۔۔" وہ جیسے بے حد تھک سی گئی تھی۔۔۔
"خود کو اکیلا مت سمجھو۔۔۔ میں ہوں نا تمہارے پاس۔۔۔پریشان مت ہو۔۔۔ اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی اس میں" مہر نے دوبارہ سے اسے خود سے لگائے جیسے تسلی دی تھی۔
"سب بہت خراب ہو گیا ہے۔۔۔ میرا تو دماغ بند ہے۔۔۔۔۔۔ تم تو مجھے جانتی ہو نا مہر۔۔۔ میں کسی کو تکلیف دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔۔ یہ احساس مجھے مار رہا ہے ۔ دانیہ کی نظریں۔۔ باقی سب کے کہے الفاظ کی تپش مجھے جھلسا رہی ہے" وہ نہایت افسردہ اور بوجھل تھی۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔ یہ سب حانی نے بگاڑا ہے۔ اسے خود ہی ہینڈل کرنے دو۔" مہر پر امید سی ہوئی۔۔۔مینو نے بے یقینی سے اسکی سمت دیکھا۔

anusinha
 

نہیں۔۔۔" وہ جیسے درخواست کر رہا تھا۔
"ہممم ٹھیک ہے پر سوچ لے مجھ بوڑھی کی زندگی کا بھروسہ نہیں۔۔ اپنی زندگی میں تیری خوشیاں دیکھنے کی حسرت رکھتی ہوں" آذان نے انھیں خود سے لگا لیا۔۔۔
"آپ ایسا نہ کہیں۔۔۔ آپ میری کل دنیا ہیں بی جی۔۔۔۔ میں جلد آپکی بات مان لوں گا" اور جیسے حبیبہ کو اطمینان دلاتے ہوئے وہ خود پر قہقہہ لگانا چاہتا تھا۔۔۔۔
"ہمیشہ خوش رہ میرے بچے" وہ بھی اداس تھیں۔ جانتی تھیں کہ آذان دکھی ہے مگر کیا کرتیں۔۔۔ ماں تھیں۔۔۔لیکن کوئی اس سے پوچھتا کہ وہ اس وقت کس تکلیف سے گزر رہا ہے۔۔۔۔ خود کو اس ظالم حقیقت کے متعلق قائل کرنا ایک ناممکن عمل تھا۔۔۔۔۔ایک لمبا امتحان تھا۔۔۔۔۔۔ جو نا قابل اختتام تھا۔۔۔۔۔ اپنی بے بسی پر سرد آہ ہی بھرنا اب مقدر میں تھا۔۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

وہ واقعی اسکے لیے فکر مند تھیں۔
"جی بی جی" وہ شاید خالی تھا۔
"بھول جا اسے۔ اور زندگی کی نئی شروعات کر۔ بہت کچھ نیا آئے گا۔ مینو کیا پتا کبھی راضی ہوگی بھی یا نہیں مگر میں تجھے بسا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں" وہ تو اس تک سے ناواقف تھیں کہ مینو اب کسی اور کے نام لگ چکی ہے۔۔۔ آذان کا دل خود پر ہنسنے کو کیا۔۔۔۔
"یہ سب اتنا آسان نہیں" وہ تلخی لیے بولا۔
"آسان کرنا پڑے گا۔۔۔ناممکن تو کچھ نہیں ہوتا" وہ پر امید تھیں۔
"ناجانے کیوں مجھے یوں لگتا ہے کہ میرا انتظار لاحاصل نہیں ہوگا۔ کوئی لوٹ آئے گا مجھ تک" اب تو وہ دیوانہ ہو رہا تھا۔۔۔ خود کو جھوٹی تسلی دے رہا تھا۔
"یہ تو اب خود کو پاگل بنانے والی بات ہے نا۔۔ میں بس جلد تیری شادی کر دوں گی۔۔۔۔ میں مزید انتظار نہیں کروں گی" اب تو وہ دکھی سا ہوا۔
"بی جان کچھ وقت دیں۔۔۔۔ ایک کے بعد ایک امتحان نہیں۔۔۔"

anusinha
 

واپس آیا تو حبیبہ کھانا لیے اسکے کمرے میں ہی آگئیں۔۔ ملازم نے انکو بتا دیا تھا کہ آذان ناشتہ کیے بنا ہی گیا ہے۔۔۔۔ دل میں آذان کے اس دکھ پر وہ بھی افسردہ تھیں۔۔۔۔
"بی جی۔۔۔ میں آنے ہی لگا تھا" حبیبہ سے فورا ٹرے لیتا ہوا وہ بولا تو وہ بھی جیسے مسکرا دیں۔۔۔ آذان ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اب حبیبہ کو پکڑے سامنے بیٹھا چکا تھا۔ جنکی نظریں آذان کی تھکی آنکھوں پر مرکوز تھیں۔۔۔
"کیوں تنگ کرتا ہے ماں کو۔۔۔ تیری یہ اداس صورت میرے دل کو ویران کر رہی ہے آذان" وہ شفقت سے اسکا چہرہ تھامے تھیں۔۔ اسے تو کچھ خبر نہیں تھی کہ اتنے بڑے خسارے کے بعد وہ کیسا دیکھائی دے رہا ہے۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں بی جی" وہ جیسے خود بھی یہ کہتے ہوئے گڑبڑایا۔
"نہیں۔۔۔۔ یہ محبت کہیں کا نہیں چھوڑتی۔۔۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ ہم سب بھول کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کریں۔۔"

anusinha
 

مجھے تم جیسے بیٹے پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ چلے جاو یہاں سے" وہ بے حد غم اور غصے کی حالت میں تھے۔۔۔اور ابھی ویسے بھی حنوط مرتضی کی قسمت میں خالی لوٹنا ہی لکھا تھا۔۔۔۔ اس نے مینو کو خالی کر دیا تھا تو وہ بھی اسی کا مستحق تھا۔۔۔ اپنے چہرے کو صاف کیے ایک نظر بابا پر ڈالتا ہوا وہ باہر نکل گیا۔ اور وہ تو جیسے اپنا سر جھکا گئے۔۔۔۔۔
◇◇◇
ماں تو ہر صورت ہی بچوں کے دل میں جھانک لیتی ہے۔ پھر بھلا وہ کچھ بتائیں یا چھپا جائیں۔۔۔ آذان کی آنکھوں کی ویرانی وہ محسوس کر سکتی تھیں۔۔۔ انھیں یہی لگتا تھا کہ آذان مینو کے رشتے کے انکار کے باعث دکھ میں ہے۔۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ انکے بیٹے کی تو دنیا ہی اجڑ چکی ہے۔۔۔۔۔ رات وہ ناجانے کب آیا تھا حبیبہ کو پتا نہیں تھا اور صبح ہوتے ہی وہ سیمینار کے لیے نکل گیا تھا۔۔۔

anusinha
 

جو بدلے میں مزید ہلکان ہوا تھا۔
"میں بے حد مجبور تھا بابا۔۔۔۔۔ یہ ازیت میری جان لینے لگی تھی۔ یہ نہ کرتا تو شاید آج آپکے سامنے نہ ہوتا" وہ سر جھکائے آنکھوں کی نمی چھپاتے بولا۔۔۔ مہران نہایت غمگین تھے۔
"یہ کیسی مجبوری ہے جو کسی ایک کے لیے باقی تمام رشتوں کی ناقدری کروا گئی۔۔۔۔ ارے مرد کی تو ایک زبان ہوتی ہے اور وہ اس زبان کو نبھانے کے لیے اپنی جان دے دیتا ہے۔۔۔۔ اور تم نے تو ہم سب کی ہی جان نکال دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اسقدر بے حس اور خود غرض کیسے ہو سکتے ہو۔۔۔۔۔ میں نے تو تمہیں ہمیشہ دوسروں کی خوشی کا احترام کرنا سیکھایا تھا" وہ بے حد دل بردآشتہ سے تھے۔
"بابا پلیز مجھے معاف کر دیں" وہ التجا کر رہا تھا اور اسکا مرجھایا اور تھکا چہرہ بھی بے جان سا تھا۔۔۔
"کیوں تم نے اس بوڑھے باپ کو اس قدر لاچار کر دیا ہے۔

anusinha
 

جو چھینا ہے مجھ سے چھینا ہے نا۔۔۔ تمہیں یا کسی اور کو اس سے اس طرح حقارت سے بات کرنے کا حق کس نے دیا؟۔۔۔۔ " دانیہ کا دل ایسا ہی تھا۔۔۔۔۔ جو بھی تھا وہ مینو سے جتنی بھی ناراض ہو لیتی پر اس سے ہونے والی لازوال محبت کبھی مٹا نہیں سکتی تھی۔۔۔ نیلم تو منہ بنائے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔ اسے تو دانیہ کی دماغی حالت ہی ہلی لگی تھی۔۔۔
"میں تم سے بہت ناراض ہوں مینو۔۔۔۔ لیکن تم میری جان ہو۔۔۔۔" چند آنسو دانیہ کے چہرے پر سمٹ آئے۔۔۔
"میں خود کو منا لوں پھر تم سے مان جاوں گی" اگلے ہی لمحے وہ اپنے چہرے کی نمی صاف کرتے ہوئے دوبارہ کپڑے الماری میں رکھنے لگی۔۔۔ فرق اتنا تھا کہ اب دانیہ کی آنکھیں پتھر نہیں رہی تھیں۔۔۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

"تم جیسی ہو نا۔۔۔۔بہت اچھے سے پتا چل گیا ہے ہمیں۔۔تم اگر ہماری کزن نہ ہوتی تو پتا نہیں کیا کر دیتے ہم۔۔۔۔۔" نیلم کا حقارت بھرا لہجہ مینو کو کاٹ کھا رہا تھا اور وہ پھر سے مجرم بنی سر جھکائے تھی۔۔۔
"دانیہ" مینو نے ایک آخری التجاء کی۔
"جاو یہاں سے سنا نہیں تم نے۔۔۔۔۔ کتنی ڈھیٹ ہو تم۔۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم دانیہ کے سامنے بھی آو۔۔۔ کس منہ سے آئی ہو بتاو" اب تو شاید مینو کو واقعی مر جانا چاہیے تھا۔۔۔۔ وہ فورا وہاں سے نکل گئی۔۔۔۔۔
"نیلم ۔۔۔۔ بی ہیو یور سلیف۔۔۔کیا طریقہ تھا یہ۔۔۔۔" اب تو نیلم ہونق زدہ سی تھی کیونکہ دانیہ اس پر شدید غصہ تھی۔۔
"وہ آپکے ساتھ اتنا کچھ کر چکی ہے تو کیا میں بولوں بھی نہیں؟ ابھی بھی آپکو اس سیلفیش لڑکی کا خیال ہے جس نے آپ سے حانی بھیا کو چھین لیا" نیلم تو بے یقینی کی ہائیٹ پر تھی۔

anusinha
 

"دانیہ۔۔۔پلیز میری طرف دیکھیں۔۔" وہ دانیہ کا بازو پکڑے اسے سامنے کرتے بولی۔۔۔ آنکھیں مینو کی نمی سے اٹی ہوئی تھیں۔۔۔ دانیہ کا دل دہلا۔۔۔۔۔ یہ آنسو اسے اسقدر سچے لگے کہ وہ نظریں پھیر گئی۔۔۔۔۔۔۔زخم ابھی بے حد تازہ تھا۔
"مت آو میرے سامنے مینو۔۔۔۔۔۔۔ " وہ ویرانی لیے اسے ہدایت دے رہی تھی۔
"دانیہ پلیز آپ تو مجھے جانتی ہیں نا۔۔۔ میں آپکو دکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔" مینال کی بات پر دانیہ نے ایک تلخ نظر ڈالی۔۔۔
"پھر بھی دے دیا۔۔۔۔ وہ بھی بے حد بڑا۔۔۔ میرے پیار کا ہی نہیں۔ میرے اعتبار کا بھی خون کر دیا تم نے مینو۔پلیز جاو یہاں سے" دانیہ کی ناراضگی میں بھی مینو کے لیے نرمی تھی۔۔۔۔ وہ کیسے اس مینو کو دھتکار دیتی جو اسکی جان تھی۔
"دانیہ مجھے ایک صفائی کا موقع تو دیں۔۔۔۔ آپکی مینو ایسئ نہیں ہے" دانیہ تو جیسے اسکی التجاء پر پگھل جاتی مگر۔۔۔۔۔

anusinha
 

رات بیت گئی تھی۔ مینو نے مہر سے صبح ملنے کا ارادہ کیا تھا۔۔۔ ساری رات حانی باہر ہی تھا اور اب وہ کسی صورت اس بے حس کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ رات تو سبکی ہی کرب میں گزری تھی۔۔۔مینال نے اپنے اندر اپنی رہی سہی ہمت اکھٹی کی اور باہر نکل آئی۔۔۔۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ دانیہ اسے کبھی نہیں دھتکارے گی۔۔۔۔ اتفاق سے اسے دانیہ کے کمرے کا دروازہ کھلا مل گیا۔۔۔۔ مینو من وزنی قدم اٹھاتی دانیہ کے کمرے میں گئی۔۔۔ فل بیلک شرٹ اور بلو جینز۔۔ بال پونی میں مقید کیے وہ اسکے پیچھے کھڑی تھی۔ دانیہ ویران سی الماری میں شادی کے کپڑے رکھ رہی تھی۔۔۔۔ یوں جیسے کوئی ربورٹ ہو۔۔۔ مینو کا دل تو اسے دیکھ کر ہی بھر آیا تھا۔۔۔۔۔ پھر جیسے اپنا ضبط بحال کرتی وہ دانیہ کے روبرو آئی۔۔۔۔ دانیہ کے چہرے پر یک دم مزید تاریکی پھیلی اور وہ رخ پھیر گئی۔۔

anusinha
 

اور وہ ہنسی حانی کے آر پار ہوئی۔
"بے حسی کا شکوہ آپ جیسا بے حس کرتا ہوا اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔ میں آپ سے بات ہی کیوں کر رہا ہوں؟۔۔۔۔۔۔ " اگلے ہی لمحے دائم اٹھا۔۔۔ ایک ناراض نظر حانی کو دیکھا اور اندر چلا گیا۔۔۔۔دائم یا کسی اور کا منہ پھیر لینا تو جیسے حانی کو اثر انداز ہی نہیں ہوا تھا۔۔۔۔۔ وہ نظر اٹھا کر مینو کے کمرے کی ونڈو دیکھ رہا تھا جس میں تو آج مینو نے ہوا تک کو آنے سے روک رکھا تھا۔۔۔۔۔ دل جیسے بند ہوا۔
"تمہیں بہت تکلیف دے بیٹھا ہوں۔۔۔۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں۔ تمہاری ہر تکلیف دور کر دوں گا۔۔۔۔ مجھ سے دور مت ہونا مینو" اور صرف یہی درد تھا جو اب حانی کی پتھرائی آنکھیں بھیگا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ سر جھکائے جیسے پھر سے حالت غیر میں تھا۔
◇◇◇

anusinha
 

"اگر آپ پہلے بتا دیتے تو شاید آج حالات اور ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے دانیہ کا دل توڑ کر بہت ناانصافی کی ہے۔۔۔ میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گا" وہ بھی خفا سا اسکے ساتھ بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔۔حانی جیسے اپنے آپ میں لوٹا تھا۔۔۔۔
"مت کرو" ساکت لہجہ اور مری ہوئی آواز۔۔۔۔
"ہمممم آپ اتنے بے حس تو نہیں تھے۔۔۔۔ اور وہ مینو۔۔۔۔ ناجانے کس بات کا بدلا لیا ہے اس نے۔۔۔۔۔۔۔" مینو کو سب ہی غلط سمجھ رہے تھے اور یہی حانی کی سب سے بڑی تکلیف تھی۔
"دائم اسے بیچ میں مت لاو" حانی نے جیسے اسے وان کیا تھا۔
"وہ آچکی ہے۔۔۔۔۔۔ بہن کہا تھا اسے۔۔۔۔ کیا خبر تھی کہ وہ میری ہی بہن کی خوشیاں کھا جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ افسوس" دائم کا دل بھی بہت دکھا ہوا تھا۔۔۔۔
"سب کے سب بے حس ہو۔۔۔۔" حانی نے نظر اٹھائے شکوہ کیا تو دائم کو جیسے ہنسی آئی۔

anusinha
 

"دائم۔۔۔۔ بھیا کیسے ہیں؟" دائم کو باہر آتا دیکھ کر ماہین نے بے قراری سے پوچھا۔۔۔نیلم ابھی بھی بابا کے پاس ہی تھی۔
"بہتر ہیں۔ مگر ایک دم چپ ہو گئے ہیں۔۔۔۔ حانی بھائی نے بہت غلط کیا ہے" دائم بھی یک دم غصے میں آیا تھا۔۔۔۔ ماہین تو ایک سرد آہ بھر چکی تھی۔۔۔۔۔
"پتا نہیں ہمارے اس ہنستے مسکراتے گھر کو کس کی نظر لگ گئی ہے" ماہین نے دوبارہ سے سر تھام لیا جبکہ دائم اب غصے میں لان کی طرف نکل گیا۔۔۔۔ سامنے ہی اسے حانی بیٹھا ہوا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔۔
◇◇◇
"کیوں کیا آپ نے ایسا حانی بھائی۔۔۔۔۔آپکے اس ایک فیصلے نے اس ہنستے مسکراتے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا ہے" وہ بظاہر غصے میں تھا مگر حانی کا بوجھل اور ہارا چہرہ دیکھ کر وہ بھی یک دم دکھی ہو گیا۔۔۔۔۔۔وہ ایک اجڑی حالت میں تھا۔۔۔
"اگر آپ پہلے بتا دیتے تو شاید آج حالات اور ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔

anusinha
 

انھیں تو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا جیسے کسی کی دنیا ویران ہو گئی ہو۔۔۔ دائم اور نیلم ، مہران کے روم میں تھے۔۔۔۔۔۔ انکی طبعیت بھی کچھ اچھی نہیں تھی۔ بی پی بہت ہائی ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔
"بھیا۔۔۔ خود کو سنبھالیں" ماہین جیسے تھکے انداز میں رضوان کا ہاتھ تھامے تھیں۔۔ نادیہ بھی سامنے بیٹھ چکی تھیں۔ ان سب کی تو جیسے دنیا ہی ویران ہو گئی تھئ۔
"کل کے لیے سارے انتظامات کینسل کروا آیا ہوں۔۔۔ مہمانوں کو بھی بھائی صاحب کی بیماری کا بہانہ کیا ہے۔۔۔ اس جھوٹ کو بولنے سے پہلے میرا دل یہی کیا کہ زمین میں گڑھ جاوں۔۔یہ کیا کر دیا ہے ان بے حسوں نے؟" رضوان کی آنکھیں لال تھیں اور ماہین اور نادیہ کے پاس جیسے کوئی لفظ نہ تھا۔۔۔
"مجھے سر درد کی گولی دو ورنہ میرا سر پھٹ جائے گا نادیہ " رضوان دل برداشتہ سے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔۔ نادیہ بھی پیچھے چلی گئیں۔۔۔

anusinha
 

دونوں نے مل کر تمہیں دھوکہ دیا ہے دانیہ۔۔۔۔ سب کی ناک کے نیچے چکر چلا رہے تھے۔۔۔۔ اففففف میرا تو سوچ کر ہی دم گھٹ رہا ہے" نادیہ اپنا سر پکڑے تھیں۔۔ اور وہ تو ایسے تھی جیسے اس نے اپنی زبان کاٹ ڈالی تھی۔
"یہ دونوں کبھی خوش نہیں رہیں گے" نادیہ اب دانیہ کا چہرہ تھامے بولیں جو وہشت ناک چپ اوڑھے تھی۔۔۔
"دانیہ۔۔۔۔۔ پلیز میری جان کچھ تو بولو" ماہین بھی نم آنکھیں لیے تھیں۔۔۔۔مگر شاید آج دانیہ واقعی اپنے آپ سے لاتعلق تھی۔۔۔
"مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز" گہری کھائی سے آواز ابھرئ تھی۔۔۔۔ نادیہ تو پھر سے رو دی تھیں۔۔۔
"اسے کچھ وقت دینا چاہیے۔۔۔ آجائیں بھابھی" اب کی بار ماہین بولیں۔۔۔ نادیہ کا تو دل ایک منٹ بھی دانیہ کو اکیلا چھوڑنے پر راضی نہیں تھا مگر ناچاہتے ہوئے وہ ماہین کے ساتھ باہر چلی گئیں جہاں رضوان سر گرائے بیٹھے تھے۔

anusinha
 

مینو میری جان۔۔۔ سب ٹھیک ہے نا۔۔۔ تم روئی ہو کیا؟ مجھے بتاو میرا دل بیٹھا جا رہا ہے" مہر کی آواز پر جیسے اسکا دل مزید بھر آیا۔۔۔۔
"مہر مل کر بتاتی ہوں۔ مجھے اپنا ایڈریس بھیج دو" مینو دوبارہ فون رکھ چکی تھی۔شاید اس سے زیادہ وہ بول ہی نہیں پائی تھی۔۔۔ دوسری طرف مہر پریشانی کے عالم میں اب اسے ایڈریس ٹیکسٹ کر رہی تھی۔
"یااللہ سب خیر ہو" مہر کی فکرمندی مزید گہری ہوئی۔
◇◇◇

anusinha
 

اور ڈریسنگ ٹیبل پر اپنے ہاتھ میں پکڑا بند فون رکھا۔۔۔۔ اپنا چہرہ کرب ناک انداز میں صاف کرتی ہوئی وہ اسے چارج لگا رہی تھی۔۔۔۔۔ آنکھیں سوچ سے بھی زیادہ لال ہو رہی تھیں ۔۔۔۔ انکا نیلا پن تو سرخی نے جھلسا دیا تھا۔۔۔۔
سب کے کہے الفاظ اور انکی نظریں مینو کو یاد آرہی تھیں۔۔۔ مہران کا کہنا اسے سب سے زیادہ ہرٹ کر گیا تھا۔۔۔۔ وہ کیسے اپنی مینو سے اسقدر بے یقین ہو گئے۔۔۔۔ دل جیسے خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔فون آن کرتے ہی بیل پر وہ چونکی۔۔۔۔۔ کال آرہی تھی۔۔۔۔
"مینو۔۔۔۔۔ میں ہوں مہر۔۔۔۔ کہاں ہو یار۔۔۔ نمبر کیوں بند ہے تمہارا؟" مہر نے محسوس کیا دوسری طرف صرف سناٹا تھا۔۔۔۔ اور پھر رونے کی ہلکی سی آواز۔۔۔۔۔ اسکا تو دل ہی دہل گیا۔۔۔
"مہر تم کہاں ہو؟ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں فورا" وہ اپنا چہرہ ایک بار پھر صاف کیے بولی تھی۔۔

anusinha
 

ان آنکھوں کی تکلیف اور درد اسے نڈھال کر رہا تھا۔۔۔وہ ہار گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ بکھر گئی تھی۔ سب کی خفا آنکھیں اسکا منہ چرا رہی تھیں۔۔۔ سبکی ملی جلی حقارت اب مینو کا گلا دبا رہئ تھی۔۔۔۔
"مجھ سے سب چھین لیا آپ نے حانی۔۔۔۔ میں ان سب کی نفرت نہیں سہہ سکتی۔۔۔ مجھے دانیہ کی یہ تکلیف جینے نہیں دے گی۔ یہ آپ نے کیا کر دیا" سر ہاتھوں میں لیے وہ اپنی ذات کی حد تک چلائی تھی۔۔۔۔ ویسے بھی اب اسے کون سننے والا تھا۔۔۔
"دانیہ کی نفرت۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ یہ میرے حصے میں کیا آگیا؟ میں نے تو کبھی ایسا نہیں چاہا تھا دانیہ۔۔۔۔۔ آپکو کون بتائے کہ مینو نے آپ سے کبھی کچھ چھیننے کی تمنا نہیں کی۔۔۔۔۔" وہ مسلسل روئے جا رہی تھی کہ اسکی آواز بھی اب بند ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔ یوں لگا جیسے اب اگر وہ مزید روئی تو اسکا دل پھٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔پھر جیسے وہ دروازے کے قریب سے اٹھی

anusinha
 

خود اپنا آپ تک مٹا دینا چاہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مینو تو جیسے پہلے سے دماغ میں سب سوچے تھی۔۔۔۔۔ اسکے بعد اسے یہی نفرت اور دھتکار ملنی تھی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہی مینو کا مقدر تھا۔۔۔۔۔ وہ جیسے اپنی جگہ پر پتھر ہو چکا تھا۔۔۔۔
◇◇◇
دونوں کے لیے تو پتا نہیں مگر مینو کے لیے ضرور ،زندگی بھر کا رونا لکھ دیا گیا تھا۔مینو نے برے طریقے سے کمرے کا دروازہ بند کر کے خود کو لاک کر لیا۔۔۔۔۔۔ اب وہ کیسے کسی سے نظریں ملا پائے گی؟؟؟؟؟ یہ حانی نے اسکی زندگی کو کیا بنا دیا تھا۔۔۔۔۔کیا وہ کبھی کسی کو یقین دلا پائے گی کہ وہ بے قصور ہے۔۔۔صرف یہ غلطی کہ اسے اس بے حس اور پتھر سے محبت تھی۔۔۔۔ مگر اس نے تو یہ محبت خود تک سے چھپا کر رکھی تھی۔ پھر وہ کیسے سبکی خوشیاں نگل گئی۔۔۔۔ دانیہ کی نظریں اسے ابھی تک خود میں گڑھی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔