Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

"دانیہ" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا وہ اپنی پوری رفتار سے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔۔۔۔
"ہمممم۔۔۔۔ دانیہ کی تکلیف کبھی معاف نہیں کروں گی تم دونوں کو" نادیہ بھی جیسے روتی ہوئی آنکھیں لیے بولیں اور دانیہ کے پیچھے ہی چلی گئیں۔۔۔۔۔ وہ تھکا ہارا سا پیچھے مڑا تو وہ دو آنکھیں۔۔۔۔۔ جن میں صاف لکھا تھا کہ" سزا کا وقت آگیا ہے"۔۔۔۔۔ مینو کا رونا تھم چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ حانی کا چہرہ تکلیف سے بھرا ہوا تھا۔۔۔۔
"اتنی نفرت اور اتنی دھتکار ہی ڈیزرو کرتی ہوں میں۔۔۔۔۔۔ موت آجانی چاہیے مجھے لیکن آپکو سزا دیے بغیر اب مینو مرنا بھی نہیں چاہے گی" وہ کہہ کر رکی نہیں تھی۔۔۔۔۔ یوں گئی جیسے کوئی شے ہوا میں تحلیل ہو گئی ہو۔۔۔۔۔تو حانی صاحب! دیکھ لیا آپ نے اپنی خود غرضی کا سنہرا انجام۔۔۔۔۔ اب تو اسے رونا بھی نہ آیا تھا۔۔۔۔۔۔ اب تو اسکا دل ہر شے کو بھسم کر دینے کو چاہا تھا۔۔۔۔۔

anusinha
 

کہ تم یوں اس عمر میں باپ کو زلیل کرو۔ تم میرے حانی نہیں ہو۔۔۔۔۔۔ یہ تربیت تو نہیں کی تھی تمہاری" حانی کو بھی فل وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔
"بابا مجھے ایک موقع تو دیں۔۔۔۔ " وہ حسرت لیے تھا۔
"تم دونوں میرے سامنے آنے کی کوشش بھی مت کرنا" مہران ،حانی کا ہاتھ برے طریقے سے جھٹک کر اپنے روم کی طرف بڑھ گئے۔۔۔رضوان نے دائم کو انکے پیچھے بھیجا۔ مینو کا چہرہ کئی بے آواز آنسووں سے تر تھا۔۔۔۔ ایک مجرم کی طرح وہ سر جھکائے تھی۔
"بہت برا کیا آپ نے بھیا۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو دانیہ آپی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔ اور تم۔۔۔۔۔ آستین کا سانپ بن کر دانیہ آپی کو کیسے اتنا نقصان دے گئی ہو مینو۔۔۔آپ دونوں کبھی خوش نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔ سنا آپ نے" آج پہلی بار نیلم چلائی تھی۔۔۔۔۔سب اپنی ساری بھڑاس اس معصوم پر نکال رہے تھے جو واقعی بے قصور تھی۔۔۔۔

anusinha
 

دانیہ شاید گر جاتی مگر نیلم نے اسے فورا پکڑا۔۔۔۔ دانیہ کی تیر جیسی نظریں ابھی تک حانی پر تھیں۔۔۔
"بے شرم۔۔۔۔ کتنے آرام سے تم یہ سب کہہ رہے ہو۔۔۔تم نے دانیہ کے ساتھ جو کیا ہے تمہیں زرا احساس ہے؟؟؟ آج اسکا اور تمہارا نکاح تھا۔۔۔۔ شیم اون یو" رضوان تو باقاعدہ اسکا گریبان پکڑے چلائے تھے۔۔۔
"۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو رضوان۔۔۔ میری اولاد کی وجہ سے تمہیں جو تکلیف ہوئی۔۔۔۔ دانیہ مجھے معاف کرنا میری بچی" ایک بار پھر مہران آنکھوں کی نمی چھپا نہ سکے۔۔دل پر ہاتھ دھرے وہ حانی سے کچھ فٹ دور ہوئے۔۔ کوئی مینو سے پوچھتا کہ زندہ سلامت قبر میں اترنا کیسا ہے۔۔۔۔۔۔ نظریں زمین میں گاڑے ہوئے وہ خود بھی گڑھ جانا چاہتی تھی۔
"بابا" حانی آگے بڑھا مگر وہ ہاتھ کے اشارے سے روک چکے تھے
"اس لیے تمہیں اتنا مان دیا تھا؟ اس دن کے لیے تمہیں قابل فخر بنایا تھا

anusinha
 

یہ تھپڑ اس لیے نہیں کہ تم یہ بڑا کارنامہ کر کے آئے ہو۔۔۔۔ یہ اس لیے کہ تم نے اس گھر کی بیٹی کا مزاق اڑایا ہے۔۔تمہیں زرا بھی اس گھر کی عزت کا خیال نہ آیا حانی" وہ دکھ اور غصے سے اپنی سرخ آنکھیں پھیلائے اس کے روبرو چلائے۔۔۔۔۔ دانیہ کی آنکھیں یک دم پھوٹیں۔
"بابا میرے پاس اور کوئی چوائز نہیں تھی" وہ تھپڑ کی پرواہ کیے بنا بولا تھا۔۔۔۔
"اس گھر کی عزت کو مٹی میں ملانے سے پہلے تم مر جاتے حنوط تو اچھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور تم سے تو شاید اب میں بات بھی نہ کرسکوں" حانی کو کہتے ہوئے وہ اگلی نظر مینو پر ڈالتے بولے جو پہلے ہی مردہ سی دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔ مہران کی تلخ اور دکھ سے بھری نظر جیسے وہ برداشت نہ کر پائی۔
"مینو کو کچھ مت کہیں۔۔ اسکا کوئی قصور نہیں۔ یہ کرنے کے لیے میں نے اسے فورس کیا۔آپ سبکو جو کہنا ہے۔ جو کرنا ہے میرے ساتھ کریں"

anusinha
 

کان یہ سننے کے بعد بھی انکاری تھے کہ نہیں۔۔۔۔کچھ غلط سن لیا۔۔۔۔ پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔۔۔۔۔مہران تو بمشکل صوفے پر بیٹھے۔۔۔۔ غصے اور ناراضگی کی انتہا پر پہنچے ہوئے وہ بے یقین نظر سے حانی کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔ دانیہ شاید پتھر ہو چکی تھی۔۔۔۔۔ دائم اور نیلم کے چہرے کی رنگت فق تھی۔۔۔۔۔۔ ماہین، نادیہ اور رضوان تو شاید اسے مزاق سمجھے۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ایک تکلیف تھی جو اس لاونچ میں موجود ہر فرد کے چہرے پر ابھری تھی۔۔۔۔۔ مہران پوری قوت سے اٹھے اور ایک زور دار آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔ ایک زور دار تھپڑ حانی کے چہرے پر ثبت ہوا تھا۔۔۔۔۔ اور پھر جیسے انکا وہ ہاتھ کانپا اور آنکھوں میں نمی ابھری۔۔۔حد ختم تھی۔۔۔۔ کئی مان، کئی بھروسے پاش پاش ہو کر زمین بوس ہو چکے تھے۔۔۔۔آج پہلی بار وہ حانی پر ہاتھ اٹھا کر خود بھی تکلیف میں تھے۔۔۔

anusinha
 

مینو تو یوں لگ رہا تھا رو رو کر آئی تھی۔۔۔۔ اور حانی کے چہرے کے تباہ کن رنگ اور وہشت ناک سنجیدگی بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔
"کہاں تھے تم دونوں؟" اب کی بار دانیہ آگے بڑھی۔۔۔ مگر ان دونوں کے چہروں پر تو صاف سناٹا طاری تھا۔۔۔
"زبان کہاں ہے تمہاری حانی۔۔۔ سب کچھ پوچھ رہے ہیں" اب کی بار فکر سے ہلکان ہوتے مہران سامنے آئے۔۔سب ہی اب ساکت تھے۔۔۔ مینو کا تو دل پھٹ جانے کے مقام پر تھا۔۔۔۔ دانیہ اب اپنے دہلتے دل کو نارمل کرتے ہوئے ان دونوں کے ویران اور تاریک چہرے فوکس کیے ہوئے تھئ۔۔۔۔ حانی نے ایک نظر بس مسمار ہو جانے والی مینو کو دیکھا اور ایک نظر سب ساکت سے گھر والوں پر۔ اور ایک تھکی ہاری نگاہ وہ دانیہ پر ڈال چکا تھا۔ وقت کا ستم۔۔۔۔۔۔۔۔شروع ہونے کو تھا
"میں نے مینو سے نکاح کر لیا ہے" یوں لگا جیسے ہر سماعت پر کوئی منوں وزنی شے گرائی گئی تھی۔

anusinha
 

اب مزید اسکی زندگی میں کچھ برا نہ ہو۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ یااللہ اس الجھن کو ختم کیجئے" وہ بھی جیسے تھک ہار کر سر ہاتھوں میں پکڑ چکا تھا۔۔۔۔۔ کچھ بھی تھا۔۔۔۔ بھلے اس نے مینو کی زندگی اور اسکی آسانی کا سوچا تھا مگر وہ اب واقعی پریشان تھا۔۔۔۔ آخر کیا وجہ تھی کہ ان دونوں کے نمبرز بھی آف تھے۔۔۔۔ بس وہ دل تک مینال کی خیر و عافیت اور خوشی مانگ رہا تھا۔۔۔ آفس میں ایک ضروری میٹنگ تھی تبھی وہ آیا تھا۔۔۔۔۔ حرا کو اس نے جلدی گھر آجانے کا کہا تھا۔۔۔ تبھی وہ فون اور گاڑی کی چابی لیے باہر نکل گیا۔
◇◇◇
"کہاں رہ گئے تھے تم دونوں۔۔۔زرا بھی احساس ہے تم دونوں کو کہ ہم کس قدر پریشان ہیں۔۔۔ اور حانی تم سے تو مجھے اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی" رضوان باقاعدہ خفگی سے ان دونوں سے مخاطب تھے جو پتھر بنے کھڑے تھے۔۔ پہلے تو سب کی نظریں ان دونوں کے چہروں کو دیکھ کر متوجہ ہوئیں

anusinha
 

♥♥♥♥♥♥♥♥
مینو کا فون بند تھا اور یہ عادی کے لیے تشویش ناک تھا۔۔۔ وہ کافی دیر سے اسکا فون ٹرائے کر رہا تھا۔۔۔۔ وہ جو کچھ کر چکا تھا اسے اسکے اثرات ابھی سے دیکھائی دے رہے تھے۔۔۔
"یااللہ سب ٹھیک ہو" عادی اب حانی کا نمبر ملا رہا تھا۔۔۔ مگر وہ بھی بند تھا۔۔۔۔ اسکی فکر مندی جیسے پریشانی میں بدلی تھی۔
"مہر سے پوچھتا ہوں۔۔۔" اب کی بار کال جا رہی تھی۔۔۔ وہ پاکستان پہنچ چکی تھی۔۔۔۔۔ عادل کی کال آنے سے پہلے وہ مینو کو ہی کال کرنے والی تھی۔۔۔ عادل کا نام دیکھ کر مسکرا دی اور فون کان سے لگا لیا۔
"میرے بے تاب شہزادے پہنچ گئی ہوں۔۔۔ آتے ہی نیند پوری کی۔ ابھی ہم رضی کے گھر جانے لگے ہیں۔۔ تم بتاو کیسے ہو۔ حرا کیسی ہے؟" مہر نے مسکراتے ہوئے کہا مگر مقابل تو بس بے چینی تھی۔
"سب اچھا ہے۔ تم نے سب سے مل لیا کیا؟" عادل کا اشارہ مینو کی طرف تھا

anusinha
 

"کچھ دیر انتظار کر لیتے ہیں۔۔ اگر انکا کوئی پتا نہیں چلتا تو میں بھی جاتا ہوں تمہارے ساتھ" سب ایک دوسرے سے زیادہ ساکت تھے۔۔۔۔۔ پھر یک دم گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔۔۔۔۔دائم کے پیچھے ہی سب باہر کی طرف بھاگے۔۔۔۔۔۔ حانی کی گاڑی کھلی تھی اور اگلے ہی لمحے وہ دونوں اندر کی طرف آتے دیکھائی دیے۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

نیلم بھی اداس سی صورت بنائے انکے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔ دائم ابھی بھی مسلسل دونوں کا نمبر ٹرائے کر رہا تھا۔
"وہ ایسے غیر ذمہ دار تو نہیں ہیں۔۔۔ خاص کر حانی۔ خدانخواستہ کچھ ہو نہ گیا ہو" ماہین نے بھی الجھن اور پریشانی کے عالم میں کہا تو سب ہی متوجہ ہوئے۔۔۔
"اس طرف تو دھیان ہی نہیں گیا۔۔۔ یا اللہ خیر" مہران کا تو دل دہل سا گیا تھا۔ باقی سب بھی مزید پریشان ہو چکے تھے۔
"آپ لوگ جا کر ہوسپٹلز میں دیکھ آئیں پلیز۔۔۔۔ میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے" دانیہ بھی اپنے پریشان دل کو ناجانے کیسے قابو کرتے روہانسی ہوئی۔۔۔۔
"میں دیکھتا ہوں" دائم نے فورا کہا۔

anusinha
 

آخر وہ دونوں کہاں چلے گئے تھے؟؟؟؟ سب کے ذہن یہی سوچ سوچ کر معاوف ہو رہے تھے۔۔ مہندی کے خوبصورت لباس میں لپٹی دانیہ کے چہرے پر سب سے زیادہ پرہشانی تھی۔۔۔ دائم، رضوان تو باقاعدہ کئی جگہ فون ملا چکے تھے مگر کہیں سے کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی۔۔۔۔ اب تو جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا۔۔۔۔ سب کے چہروں کی پریشانی، خوف میں منتقل ہو رہی تھی۔
"حد ہو گئی غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کی۔ کم ازکم حانی سے یہ امید ہرگز نہیں تھئ" اب تو رضوان کو شدید غصہ آرہا تھا۔ وہ مسلسل لاونچ میں ٹہلتے ہوئے بولے۔ نجانے مہمانوں سے حانی کی غیر موجودگی کے کیا کیا بہانے کرنے پڑے تھے۔۔دانیہ کا چہرہ مزید بوجھل ہو گیا تھا۔ ماہین اور نادیہ بھی سبکے لیے چائے لے آئیں مگر فل وقت کسی کا کوئی موڈ نہ تھا۔ مہران صاحب نے تو پریشانی کی وجہ سے دوا لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔۔۔

anusinha
 

خود سے حانی کو دور دھکیلتے ہوئے وہ گاڑی کی سمت بڑھی مگر اسکی بازو ایک بار پھر حانی کی گرفت میں تھی۔
"مجھ سے دور رہیں۔۔۔۔۔۔" وہ جانتا تھا کہ وہ اس غصے میں بلکل حق بجانب ہے۔۔اپنی بازو ایک جھٹکے سے چھڑواتی۔گاڑی میں بیٹھتی ہوئی وہ آنسو صاف کرتی مینال مرتضی ٹوٹ چکی تھی۔۔۔۔۔ وہ بھی سنجیدگی سے دوسری جانب جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ نظر گن پر گئی تو جیسے مینو کے ان بے آواز انسووں میں یک دم تیزی آگئی۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کی زندگی کا ایک لمبا اور کھٹن سفر شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔
◇◇◇
نکاح خواں کافی انتظار کرنے کے بعد جا چکا تھا۔ مہمانوں کے آنے کی وجہ سے صرف مہندی کی گئی تھی ورنہ تو اب حمدان حویلی کا ہر فرد فکر اور پریشانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ حانی اور مینو دونوں کے نمبر شام سے مسلسل آف تھے۔۔۔۔ اب تو رضوان باقاعدہ ان دونوں کو ڈھونڈنے جانے والے تھے۔۔۔۔

anusinha
 

اگر ایسا ہوا تو حنوط مرتضی تمہاری دی ہر سزا کو قبول کرے گا۔۔۔ پلیز مجھے سمجھو" وہ حسرت اور التجاء لیے تھا۔
"کوئی بھی سزا؟" وہ اسے دیوانی ہی لگی۔
"ہاں۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک بار کوشش کر لینے دو۔ میں سبکو جواب دہ ہوں۔۔۔۔۔ تم پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔" مینو نے بس اسکا پہلا لفظ ہی سنا۔۔۔۔۔۔۔ باقی تو وہ شاید ساکت تھی۔۔۔۔ اور وہ جانتی تھی کہ اسے حانی کو کیا سزا دینی ہے۔
"ٹھیک ہے" اپنے چہرے کو صاف کرتی ہوئی وہ زمین سے اٹھ گئی۔ وہ بھی اٹھا۔۔۔۔ مینو نے جیسے ایک بار پھر اپنی اذیت ضبط کی۔
"حنوط مرتضی اس بار آپکی سزا مینو طے کرے گی۔۔۔۔۔۔ " ایک تیر سی نظر وہ حانی پر ڈالتے سوچ رہی تھی جو ایک دم تھکے انداز میں اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔
"مینال" ایک مدت کی تکلیف یوں پل بھر میں کیسے مٹ جاتی۔۔۔ اور اب تو مینو بھی یہ ازیت مزید برقرار رکھنا چاہتی تھی۔

anusinha
 

مینو بے قابو ہو رہی تھی اور وہ اسے دیکھ کر مزید تکلیف میں جا چکا تھا۔
"مینو میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔۔ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔" وہ تھکے انداز میں دوبارہ سے اسکا چہرہ تھامے تھا۔۔۔ مینو کے چہرے کا دکھ اب اسے بھی رنجیدہ کر چکا تھا۔ بھلا محبت ایسی کب ہوتی ہے۔۔۔۔۔ محبت تو سخاوت کا دوسرا نام ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ محبت تو آذان نے امر کر دی ہے۔۔۔۔ وہ بے یقینی سے حانی کا ہارا چہرہ دیکھ کر سوچ رہی تھی۔۔۔ آنکھیں تو رو رو کر اب ہلکان ہو چکی تھیں۔۔
"مجھ سے میرا ہر رشتہ چھن جائے گا۔۔۔۔۔۔ آپ نے ایک دفعہ بھی نہیں سوچا کہ آپکی یہ محبت مینو کی بربادی ہے۔۔۔۔۔ مجھے سب کی نظروں میں گرا دیا آپ نے۔۔۔۔" تکلیف لفظ بہت چھوٹا تھا۔۔۔ وہ دونوں اس وقت دکھ کے کسی اونچے مقام پر تھے۔
"مینو ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔ تم سے کچھ نہیں چھنے گا۔۔۔

anusinha
 

مگر صرف سزا سنانے کے لیے۔۔۔۔۔
"ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔۔ اور کونسے گھر کی بات کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔ وہ گھر جس سے مینو کو دھکے مار کر نکال دیا جائے گا۔۔ دلوں سے خارج کر دیا جائے گا۔۔۔بولیں کیوں کیا آپ نے؟ مجھ سے سبکو چھین لیا آپ نے حانی۔۔۔۔۔۔۔۔آئی ہیٹ یو" کرب اور تکلیف میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔۔۔ اور وہ بھی رو دینا چاہتا تھا۔۔۔
"مینو۔۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔وقت اور حالات سب یہی چاہتے تھے۔۔۔ میں اپنے اندر کی اس تکلیف سے تھک چکا ہوں۔۔۔ مزید خود کو ازیت دیتا تو شاید مر جاتا" وہ اسکا چہرہ تھامے بولا جسے مینو نے غصے اور حقارت سے دور دھکیلا۔۔۔۔۔
"اپنی ازیت ختم کرنے کے لیے آپ نے میری تکلیفوں کو سو گنا بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اتنے خود غرض کیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔ اففففف یہ کیا کر دیا آپ نے"

anusinha
 

پھر کبھی نہ رونے کے لیے ہمیں ایک بار میں سارا رونا پڑتا ہے۔۔۔۔ اور وہ بھی یہی کر رہا تھا۔۔۔۔
◇◇◇
وہ زمین پر پیر الٹے کیے گرنے کے انداز میں بیٹھی تھی۔۔۔ حانی اپنی سانس بند ہوتی محسوس کرتا اسکی سمت دوڑا تھا۔۔۔ یک دم جیسے وہ مینو کی تکلیف محسوس کرتا ہوا اسکے سامنے پیروں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔۔۔ مینو کو وہ حد سے زیادہ تکلیف دے چکا تھا اور اسے اس بات کا اچھے سے اندازہ تھا۔۔۔۔
"مینو۔۔۔۔ اٹھو گھر چلیں" اپنے سامنے بیٹھے شخص کی تھکی آواز سن کر جیسے وہ سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ کیا یہ وہی حنوط مرتضی تھا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ دل اور دماغ دونوں نے ہی نفی کی تھی۔ اور جس پر اسکی نظریں تھیں وہ تو اب مینو کا وہشت ناک چہرہ دیکھ کر نڈھال ہو رہا تھا۔۔۔گھر جانے کا تو وہ یوں بولا تھا جیسے سب ہی ان دونوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ راہ تو دیکھی جا رہی تھی

anusinha
 

اپنے تر چہرے کو خشک کیے وہ پر امید تھا۔
"رو لو آذان۔۔۔۔۔۔۔ تم نے ایک بڑا خسارہ خود کے لیے چنا ہے۔۔۔۔ وہ جسے تم نے اپنی ہر دعا میں مانگا ہے وہ تمہاری اب کبھی نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔۔ وہ قسمت کے سکندر کے نام لکھ دی گئی ہے۔۔۔۔ رو لو کہ کہیں یہ ہار تمہارا اندر ویران نہ کر دے" کوئی تھا جو اسے ہدایت دے رہا تھا۔۔۔۔۔
"محبت کرتے ہو نا؟؟؟ تو پھر ایمانداری سے کرتے رہو۔۔۔ اسے کہہ دو کہ جاو تمہیں اس رب کے حوالے کیا۔۔۔۔۔۔" دل نے جیسے باہر نکل کر اسکا کندھا تھام لیا تھا۔۔۔۔۔ اور یک دم وہ آنکھیں پھر سے نم ہو گئیں۔۔۔۔ ہاں مرد بھی تو رو سکتا ہے۔۔۔۔ وہ پتھر تھوڑی ہے۔ اسکے پاس بھی تو درد رکھتا ہوا دل ہے۔۔۔۔ کیا ہوا کہ اگر رب نے مرد کو اس معاملے میں عورت سے زیادہ مضبوط بنایا ہے ۔۔۔۔لیکن تکلیف کا محسوس کرنا تو ایک سا ہے۔۔۔۔۔

anusinha
 

"جاو۔۔۔۔۔ میں کون ہوتا ہوں دینے والا۔۔۔۔۔ میں تو خود اسکی ایک جھلک کا فقیر ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اسکا اسیر ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ میری نہیں ہے۔۔۔۔ وہ تمہاری ہے حنوط مرتضی" ایک اور کرب ناک آواز ابھری۔۔ چند بے آواز آنسو آذان کے رخساروں پر ڈھلک پڑے جن کو اس نے بے دردی سے پونچھ ڈالا۔
"مرد بن آذان۔۔۔۔۔۔ تیری اسیری کے دن مختصر نہیں تھے" خود پر تلخی سے ہنستا ہوا وہ نیم پاگل لگا۔۔۔رات کی تاریکی اسکی تکلیف سے کم وہشت زدہ تھی۔
"مولا اسے بھی میری اس محبت سے رہائی دے دیں۔۔۔ وہ جسکی ہو مکمل ہو۔۔۔۔۔ میری نہیں تو نا سہی۔۔۔۔ مجھے کمزور مت کیجئے۔ آپ جانتے ہیں میں یہ ٹوٹنا افورڈ نہیں کر سکتا" تو گویا یہ بھی اوپر والے سے باتیں کرنا جانتا تھا۔۔۔۔آذان کی تکلیف بے حد تھی۔
"مجھ سے تمہارے نام پر کوئی جان بھی مانگے تو انکار نہیں پائے گا وہ۔۔۔۔۔۔۔یہ وقت کڑا ہے۔۔۔۔ ناگزیر نہیں"

anusinha
 

ایک گہرا سانس خارج کرتا ہوا وہ گاڑی روکنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ پھر جیسے بجلی کی سی تیز رفتاری سے وہ باہر نکل آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ کیا کر دیا تم نے آذان؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کوئی یوں اپنی متاع حیات کسی کو سونپ دیتا ہے بھلا؟۔۔۔۔۔ تمہیں زرا ترس نہیں آیا خود پر۔۔ تم کسی مٹی کے بنے ہو؟" اپنے کرب کا اظہار وہ بس اس اندھیرے سے ہی کر پایا تھا جو مینال کے کھو جانے پر اسکا مقدر تھا۔۔۔ پہلی بار اسکی نیلی آنکھیں، سرخ تکلیف میں لپٹ کر خوفناک منظر پیش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
"وہ شخص حنوط مرتضی ہے آذان۔۔۔۔۔ اس شخص کو بھی مینو چاہیے۔۔۔ میری اس تکلیف کو کم کرنے میں میری مدد کرو" کانوں میں حانی کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔۔
"کروں گا" پھر جیسے خود آذان کی آواز گونجی۔
"مجھے مینال دے دو" ایک اور آواز ابھری۔۔۔ جس پر آذان کی ڈھرکن تھمی تھی۔

anusinha
 

تبھی میری درخواست ہر سمت سے رد ہو گئی۔۔۔۔ خیر یہ سب قسمت کی باتیں ہیں۔" مینو کا دل چاہا وہ یہاں سے غائب ہو جائے۔۔۔۔۔ یہ لفظ نہیں تھے۔ اسے یہ زہر سے آٹے تیر محسوس ہو رہے تھے۔ خود کو مزید زمین میں گڑتا محسوس کرتی ہوئی وہ بس گر جانے والی تھی۔۔۔
"میں چلتا ہوں۔۔۔۔" حانی سے گلے ملتا ہوا ایک نظر مینو کو دیکھتے ہوئے وہ تیزی سے اپنی گاڑی کی سمت بڑھ گیا۔۔۔۔اور وہ تو جیسے مزید اپنے قدموں پر کھڑی نہ رہ سکی۔۔۔۔حانی اسکی سمت دوڑا۔۔
◇◇◇
وہ گاڑی تو وہاں سے نکال کر ان سے اوجھل ہو گیا تھا پر اسکی نیلی آنکھوں میں جیسے یک دم وہشت اور تکلیف ابھری تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تکلیف وہ زخم جسے آج تک کسی نے بھرتے نہ دیکھا تھا۔۔۔۔ اسٹیئرنگ پر ہاتھ دھرے وہ بمشکل خود پر قابو کیے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جیسے اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی ٹرک کے ساتھ لگتے لگتے بچی تھی۔۔۔۔۔۔