۔۔۔ نظر زمین پر گڑھ چکی تھی۔ہاں وہ آسمان سے زمین پر پٹخ دی جائے گی۔ یہی مٹی یہی زمین اس پر تنگ ہو جائے گی۔ ناجانے کس ضبط سے وہ آنکھوں اور دل کا کرب خود میں قید کیے تھی جو بس پھٹ پڑنے والا تھا۔۔ جبکہ حانی اور آذان بھی پیچھے ہی آرہے تھے۔۔
"آذان تم نے میرا مان رکھ کر مجھے اپنا مقروض کر دیا۔۔۔۔ اور مجھے میری اس خود غرضی کے لیے معاف کر دو" حانی نے آذان کی نیلی آنکھیں دیکھیں جو ویرانی کے باوجود مسکرائی تھیں۔
"خوش رہو۔۔۔۔۔ ہاں دانیہ سے ناانصافی مت کرنا حانی۔۔۔۔ باقی دوست کہا ہے تو یہ دوست اس دوستی میں جان بھی دے گا" مینو کی سماعت میں آذان کے الفاظ پتھر کی طرح لگے تھے۔۔۔دانیہ کا خیال آتے ہی جیسے اسکا خلق سوکھا۔۔۔ دانیہ کی تکلیف۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے تمہاری دوستی پر ناز ہے" اور آذان جیسے سر پھرے بھی نہ ملیں گے۔۔۔۔۔
اسکی آنکھوں کا خسارہ زرا بھی متاثر نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔مینو کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا بندھن جو اسے خالی کرنے والا تھا۔۔۔۔۔۔۔دل سے جیسے وہ ابھی سے حمدان حویلی کے ہر فرد کی نفرت محسوس کرتی ہوئی پین کو بڑے طریقے سے دبا رہی تھی۔۔۔۔ ایک نظر ساتھ بیٹھے اس پتھر پر ڈالی تو دل خون کے آنسو رویا۔۔۔۔ پھر نظر اس سخاوت کے پیکر پر گئی جو اپنی محبت کسی اور کو سونپے ہوئے ڈھیٹ بنا مسکرا دیا۔۔۔۔ اور اسکی وہ مسکراہٹ مینو کے آر پار ہوئی تھی۔۔۔۔۔ ذہن مفلوج تھا۔۔۔ دل تو شاید آج مر ہی گیا تھا۔۔۔۔ اور وہ خود ایک جیتی جاگتی لاش بنا دی گئی تھی۔۔۔ حانی نے اپنے دوست اور اسکی بیوی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت کر دیا۔۔۔۔ ناجانے حانی نے انھیں کیا وضاحتیں دی تھیں۔۔۔۔ مینو کو کچھ خبر نہ تھی۔۔۔۔۔۔وہ تو پہلے ہی مرے مرے قدموں سے باہر آچکی تھی۔۔۔
نکاح ہونے تک اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ نظر اٹھا پاتی۔۔۔ حانی کے پاگل پن نے اسے خود اپنی نظروں میں بے وقعت کر دیا تھا۔۔۔۔۔ سائن کرتے ہوئے مینو کو لگا اسکی روح بس ابھی اسکے جسم سے نکل جانے والی ہے۔۔۔۔ اسقدر ازیت اور تکلیف تو اسکا پورا وجود چھلنی کر رہی تھی۔۔۔۔ کاش زمین پھٹ جاتی یا آسمان گر پڑتا تو شاید اسکی اس تکلیف میں کمی آجاتی۔۔۔۔ حانی تو ہر احساس سے عاری تھا۔۔۔۔۔ مینو کو حد سے زیادہ تکلیف دے کر وہ اپنی مدت کی ازیت کا حل پا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ مرد اتنے بے حس کیوں ہوتے ہیں؟ کیوں وہ خود غرض ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ کیا اس نے ایک بار بھی دانیہ کو اس سب کے بعد ہونے والی تکلیف کا نہیں سوچا تھا؟؟؟؟ اس باپ کا جس نے ہمیشہ اس کے مرد ہونے پر فخر کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ فل وقت صرف اپنی خوشی کا سامان کر رہا تھا؟؟؟؟ کیا اسے مینو کے چہرے کا کرب،
آپ آئیں سب ویٹ کر رہے" نیلم کے اسرار پر دانیہ کو ناچاہتے ہوئے بھی باہر آنا پڑا۔۔۔۔باہر آئی تو پتا چلا کہ حانی بھی کہیں نظر نہیں آرہا۔۔۔۔تو وہ جیسے مزید اداس ہو گئی۔۔۔۔ دل میں اب وہ ان دونوں کی خیریت کی دعا مانگتی ہوئی سٹیج پر بیٹھ چکی تھی۔۔۔۔ دائم مسلسل کالز ملا رہا تھا۔۔۔۔ اب تو سب ہی ان دونوں کی غیر حاضری پر پریشان دیکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔
◇◇◇
دوسرا بڑا اور ناقابل برداشت جھٹکا تو مینو کو تب لگا جب وکیل کے آفس میں آذان کو دیکھا۔۔۔ ساتھ اسکے حانی کا ہی ایک اور دوست اور اسکی وائف تھی۔ مینو اپنا ہاتھ حانی کئ مضبوط گرفت سے زبردستی چھڑواتے ہوئے جیسے بس ضبط کے آخری کنارے پر تھی۔ اسے لگا جیسے وہ زمین میں دب گئی ہو۔۔۔ آذان کی وہ نیلی آنکھیں کچھ نہ کہہ کر بھئ سب کہہ رہی تھیں۔۔۔آج مینال کو اپنا آپ بے حد حقیر اور چھوٹا لگا تھا۔۔۔
او ہاں۔۔۔۔ میرے تو ذہن سے نکل گیا۔۔کل انکئ دوست آئی ہیں پاکستان۔۔۔ ہو سکتا ہے مینو وہاں چلی گئی ہو۔۔۔" نیلم کی بات پر دانیہ نفی میں سر ہلا رہی تھی۔
"نہیں۔۔۔ وہ یوں بنا بتائے نہیں جاتی ہے۔۔۔۔ اور ویسے بھی آجکا دن اسکے لیے ہر کام سے اہم ہے۔۔۔۔ تم ایک بار اپنے فون سے کال ملاو اسے" دانیہ کی پریشانی دیکھ کر نیلم نے فورا کال ملا دی مگر نمبر ابھی تک بند آرہا تھا۔
"نہیں۔۔۔ فون تو اسکا واقعی بند آ رہا ہے" اب تو نیلم بھی پریشان تھی۔
"ہممم۔۔۔ بہت غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہی ہے مینو۔۔۔۔ پتا بھی ہے کہ پیچھے سب پریشان ہوں گے۔۔۔۔ میرا تو باہر جانے کا زرا دل نہیں کر رہا" دانیہ اداس سی آئینے کے سامنے سے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھتے بولی۔۔۔۔
"اوہ دانیہ آپی۔۔۔ ایسا نہ کریں۔۔۔۔ میں اسکی فرینڈ کو کال کر کے پوچھتی ہوں نا۔۔۔
اسے لگا کہ ایک بار پھر اسکے نصیب میں دربدری لکھ دی گئی ہے۔۔۔۔وہ بہت جلد دھتکاری جانے والی تھی۔۔۔۔۔ ہر رشتے سے، ہر دروازے سے اور شاید ہر دل سے۔۔۔۔۔
◇◇◇
مہندی کی رسم شروع ہو چکی تھی۔ دائم کو حانی نے کال کر کے کہا تھا کہ وہ کسی کام سے جا رہا ہے اور آجائے گا مگر فل حال حانی کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ سب ہی حانی کی غیر موجودگی سے واقف تھے مگر کیونکہ مہمان آنے شروع ہو گئے تھے لہذا مجبورا فنکشن شروع کر دیا گیا تھا۔ نکاح خواں بھی تشریف لا چکے تھے۔
"چلیں باہر دانیہ" نیلم مسکراتی ہوئی آئی مگر دانیہ کا بوجھل سا چہرہ دیکھے وہیں بیٹھ گئی۔
"کیا ہوا دانیہ آپی۔۔۔۔ " نیلم بھی فکر مند تھی۔
"مینو کہاں ہے۔۔۔ شام سے نظر نہیں آئی۔ نہ ہی کال اٹھا رہی ہے۔ مجھے تو بے حد فکر ہو رہی ہے" دانیہ کی فکر مندی اب پریشانی میں بدل چکی تھی۔۔۔۔ نیلم بھی فکر مند سئ ہوئی۔
اور وہ مزید تکلیف محسوس کرتی رو دی۔۔۔۔
"مجھے نہیں کرنا یہ۔۔۔۔۔۔ مجھ پر رحم کریں حانی ۔۔۔ مجھ سے میرا سب کچھ چھن جائے گا۔۔۔۔ میں آپکی منت کرتی ہوں" وہ جیسے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔کچھ دیر حانی کئ بے حسی جاری رہی اور پھر سے گاڑی رک گئی۔
"تمہیں مجھ پر بھروسہ رکھنا چاہیے"۔ خود باہر نکلتا ہوا وہ دوسری سمت سے مینو کی سائیڈ کا دروازہ کھول رہا تھا۔۔۔
"آو" مینو نے اسے اور اسکے بڑھے ہاتھ کو یوں دیکھا جیسے وہ اسے جان سے مار دینے والی تھی۔ یہ کیسی بے بسی تھی کہ وہ چاہ کر بھی انکار کرنے کی سہولت سے ہٹا دی گئی تھی۔۔۔اسے تو بس حکم سنایا گیا تھا کہ اسے آج حنوط مرتضی کا ہو جانا ہے۔۔۔ بنا اسکا ہاتھ تھامے وہ باہر نکل آئی۔ وہ جان گئی کہ اب اسکا برا وقت شروع ہونے والا ہے۔۔۔۔اسکے ساتھ چلتا وہ شخص اسکی ہر خوشی ہونے کے باوجود آج اسے اسکی زندگی سے جدا کرنے لایا تھا۔
کیوں یہ پاگل پن کر رہے ہیں۔۔۔ پلیز حانی" وہ ایک بار پھر بے بسی سے چلائی تھی۔۔۔
"پاگل پن تو وہ تھا جو ہم ایک مدت سے کرتے آئے ہیں۔۔۔ مگر اب نہیں۔۔۔۔ آج میرا اور تمہارا نکاح ہوگا۔۔۔۔" حانی نے زبردست بریک لگائے کہا اور وہ تو بے یقینی سے ساکت ہو چکی تھی۔۔۔ یوں جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہو۔۔۔ آنکھیں ایک بار پھر نمی سے بھر گئیں۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
"ک۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔ ؟" مینو سے بمشکل بولا گیا۔
"ہاں۔۔۔۔ آج میرا اور تمہارا نکاح ہوگا۔ سب ارینجمنٹس ہو چکے ہیں۔ بس ہم دونوں کا انتظار ہے" وہ کتنے آرام سے اسکی سماعت پر کوڑے برساتا بول رہا تھا۔۔۔۔مینو کی تکلیف یک دم اسکے چہرے پر ابھری۔۔۔۔۔
"آر یو ان یور سنسیز؟۔۔۔۔کہہ کیا رہے ہیں آپ۔ایسا کبھی خواب میں بھی مت سوچئیے گا۔سمجھے آپ۔۔۔۔۔" مینو غصے کی انتہا پر تھی۔ حانی ایک بار پھر اسکا بازو پکڑ چکا تھا۔۔۔۔
گاڑی روکیں حانی" مینو کا ضبط جیسے دم توڑ چکا تھا۔ وہ اپنی پوری شدت سے چلائی تھی۔۔۔ مگر ساتھ تو جیسے زمانے بھر کی بے حسی خود پر اوڑھ کر بیٹھا حانی ہلا تک نہ تھا۔۔۔
"میں کہہ رہی ہوں گاڑی روکیں۔۔۔ آپکا دماغ خراب ہو گیا ہے" مینو نے اپنے بگھڑے ہوئے حواس پر قابو پاتے ہوئے تمیز کا دامن نہ چھوڑنے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔اسکی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔
"مجھے اریٹیٹ کرنا بند کریں پلیز" وہ جیسے اپنا حوصلہ ختم ہوتا محسوس کر رہئ تھی۔۔۔ حانی نے ایک سرد نگاہ مینو پر ڈالی۔۔۔
"آج جو کچھ ہونے والا ہے تم اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالو گی۔اسکا انجام بہت برا ہوگا مینو۔۔۔۔۔" مینال کو لگا اسکا سر چکرا رہا ہے۔۔۔۔ حانی کی بات اسے سمجھ نہیں آئی تھی۔
"مطلب۔۔۔۔۔ کیا کرنے والے ہیں آپ۔۔۔۔ خدا کے لیے حانی میرا مزید امتحان لینا بند کریں۔۔۔۔آپکو مجھ پر ترس نہیں آرہا۔۔۔۔
اس لیے یہ آنسو پونچھ ڈالیے جناب" اب تو نیلم مسکراتی ہوئی نادیہ کے گلے میں بازو ڈالے سبکو ہنسا چکی تھی۔۔۔۔
"ہاں۔۔۔۔ میں کتنی لکی ہوں۔۔۔ میری بچی میری آنکھوں کے سامنے رہے گی" نادیہ بھی اب سچی والا مسکرائی تھیں۔۔۔۔
"اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس گھر کی خوشیوں کو ہر نظر سے بچائے۔۔۔ آمین" اب کی بار ماہین نے کہا تو جیسے سب نے بیک وقت آمین کہا۔۔۔۔۔ دانیہ کا بس ہیر اسٹائیل باقی تھا۔۔۔۔۔ اسکے بعد وہ مکمل ریڈی ہو جانے والی تھی۔۔۔۔۔۔۔
◇◇◇
تھینکیو جان" اسی دوران رضوان نادیہ اور ماہین اندر آئے۔۔۔ ماہین بھی پیچ کلر کے نہایت ہی دیدہ زیب لباس میں چمک رہی تھیں۔ نادیہ بھی ریڈ اینڈ گرین ہلکے کام والے ڈریس میں پرکشش لگ رہی تھیں۔۔۔ جہاں تک رہی بات رضوان صاحب کی تو وہ بھی آج بلیک کرتے اور سفید شلوار میں غضب ڈھاتے دیکھائی دے رہے تھے۔
"بھئی ہماری لاڈلی تو بے حد حسین لگ رہی ہے۔۔۔۔ جیتا رہے میرا بچہ" دانیہ کو خود سے لگائے وہ دلکش انداز میں بولے تو سب مسکرا دیے۔۔۔۔۔
"ماشاء اللہ میری جان۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تمہیں نظر سے بچائے" ماہین بھی اسے خود سے لپٹائے بولیں۔۔۔ اسکے بعد نادیہ بھی دانیہ کا ماتھا چومے اسے خود سے لگائے مسکرائی تھیں۔۔۔۔ سب بہت جذباتی سے ہو رہے تھے۔۔۔۔ موقع ہی ایسا تھا۔۔۔
"فکر ناٹ چچی جان۔۔۔ دانیہ آپی رخصت ہو کر تھوڑا جانے والی ہیں۔۔۔۔
۔ مینو کو زبردستی اندر بیٹھانے کے بعد وہ گاڑی سٹارٹ کر گیا۔۔۔ماتھے کا زخم بھی مینو نے میک آپ سے اچھے سے چھپا رکھا تھا۔۔۔ مگر چہرے کا خوف اور ڈر اب وہ میک آپ بھی نہیں چھپا پا رہا تھا۔۔۔۔
◇◇◇
"یہ دونوں کہاں گئیں؟" دانیہ نے میک آپ کے بعد ادھر ادھر دیکھا تو نہ نیلم تھی اور نہ مینو۔ ایک نظر خود کو آئینے کے سامنے دیکھا تو خود ہی مسکرا دی۔
"وہ مینو باجی کی کوئی کال آرہی تھی شاید۔۔۔ اور نیلم باجی بھی کپڑے بدلنے اور آپکی چیزیں لینے گئی ہیں۔" پارلر والی نے اب دانیہ کو ڈریس دیتے کہا جو وہ فورا بدلنے چلی گئئ۔۔۔۔ باہر آئی تو خود کو ایک نظر دوبارہ آئینے میں دیکھ کر شرما سی گئی۔۔۔ وہ بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔
"یو لکس امیزنگ دانیہ آپی۔۔۔میں صدقے جاوں" نیلم بھی ریڈی ہو کر کم حیسن نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔ دانیہ ہنس دی۔
"حانی آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے" وہ گھبرائی ہوئی اسے وارننگ دیتے تیز تیز قدم اٹھاتی باہر کی سمت چل پڑی۔
"ٹھیک۔۔۔۔ جلدی آو۔۔۔۔۔ مجھے اندر نہ آنا پڑے" وہ سختی سے کہہ کر فون بند کر چکا تھا۔۔۔۔۔ مینو کے چہرے پر پسینہ آ رہا تھا ۔ حانی کا یہ پاگل پن اسے اب ڈرا رہا تھا۔۔۔۔
"یہ کس مشکل میں پھنس گئی ہوں" ماتھے پے آئی نمی صاف کرتی ہوئی وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔۔۔۔ حانی نے دیکھا وہ غضبناک قسم کے غصے میں تھی۔۔۔۔۔۔
"حانی یہ کیا پاگل پن ہے۔۔۔ خدا کے لیے کیا کہنا ہے اب آپکو" وہ اسے دیکھتے ہی دوسری طرف سے باہر نکلا۔۔۔۔ چہرہ خطرناک حد تک ساکت تھا۔۔۔۔ خود بھی آج حنوط مرتضی ایک پتھر ہی تھا۔۔۔
"بیٹھو۔۔۔۔ اب تمہارے منہ سے ہاں کے علاوہ کچھ نہ سنوں میں" وہ تو حانی کا ایک کے بعد ایک سخت رویہ دیکھ کر شاک تھی۔۔۔۔
مینال کا فون بہت دیر سے بج رہا تھا۔۔۔ وہ جیولری پارلر والی کو دے کر سائیڈ پر گئی اور اسے سائلنٹ کر دیا۔۔۔فون پر حانی کا نام لکھا آرہا تھا۔۔۔۔۔ دس مس کالز۔۔۔۔ خود کو قابو کرتی ہوئی وہ باہر نکل آئی۔۔۔۔ پارلر والی اب دانیہ کا میک آپ کر رہی تھی۔۔۔حانی اور دانیہ کا نکاح آج مہندی والے دن ہی طے کیا گیا تھا۔
"کیا ہے انھیں۔" مینو کا دل یہی کیا کہ وہ فون ہی کہیں پٹخ دے۔۔۔ چہرے سے پریشانی اور خوف ہٹائے وہ فون ریسیو کر چکی تھی۔
"مجھے کالز کرنا بند کریں حانی۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا" وہ تو فون کان سے لگاتے ہی برس پڑی۔۔۔ وہ گھر کے باہر گاڑی میں بے چینی لیے تھا۔۔۔
"میں باہر تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔ اگر تم نہ آئی تو میں ابھی اندر آکر دانیہ سے نکاح کرنے سے انکار کر دوں گا۔۔۔ابھی اور اسی وقت باہر آو" مینو کو لگا وہ سکتے میں جا چکی ہے۔۔۔
دائم کسی بڑے دادا کی طرح کہتے ہوئے گدھے کے سر کے سینگوں کی طرح غائب ہوا تھا۔۔۔۔ وہ تینوں پھر سے مسکرا دیں۔
"پارلر والی کو کال کر دیتی ہوں۔۔۔۔ چلو تم دونوں بھی یہ چیزیں سمیٹ کر تیاری پکڑو" دانیہ نے دونوں کو ہدایت دیتے ہوئے کال ملا دی۔۔۔۔
◇◇◇
مجھ غریب کو تیسری بار آنا پڑھ رہا ہے۔جانا ہے تو چلو۔۔۔پھر مجھے بھی تیار ہونے جانا ہے۔ سمجھا کرو نا" دائم نے شرماتے ہوئے کہا تو وہ تینوں ہنس دیں۔
"او ہیلو۔۔۔ شادی تمہاری نہیں، حانی بھائی کی ہے۔ یہ چونچلے تم اپنی شادی پر کرنا۔ جاو حانی بھیا کو لے جاو۔۔۔ ہمیں تمہارے احسان کی ضرورت نہیں" نیلم تو جیسے میدان میں اتر آئی تھی۔۔۔ اور چونچلوں پر وہ واقعی ہنسا تھا۔
"افففف۔۔۔ اپنی شادی پر کہاں ہوش رہے گی مجھے چونچلوں کی" وہ ہنسی دبائے اب نیلم کو دیکھتے بولا جو باقاعدہ گڑبڑا چکی تھی۔
"ھاھا دائم۔۔۔۔ تم مار کھاو گے کسی دن۔۔۔ میں نے بیوٹی پارلر والی کو بلوا لوں گی۔۔۔جان چھوڑ دو ہماری" دانیہ نے کہا تو دائم نے لمبا سا سانس لیا جیسے بہت ہی ریلیف ملا ہو۔
"صدقے جاواں۔۔۔ بھائی کا کتنا خیال ہے میری بہن کو۔۔۔ جیتی رہ۔"
میک آپ میں آج وہ کچھ زیادہ ہی پیاری لگ رہی تھی۔ اندر تو اسکے قبرستان سی وہشت تھی مگر وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی۔ بس خیریت سے یہ شادی ہو جائے، یہی دعا تھی اسکی۔
"یہ میرا نکما بھائی بھی نمونہ ہی ہے۔۔۔۔ ابھی سے تیار کروا کے بیٹھائے گا تاکہ رات تک دانیہ اکٹر جائے۔۔۔۔" دانیہ مزے سے اپنے گیلے بال سکھاتے بولی تو اندر آتی نیلم بھی ہنس دی۔۔
"اوہ ہو دانیہ آپی۔۔۔۔ ہم آپکو اتنا زیادہ بیٹھائیں گے ہی نہیں۔۔۔ فل واک اور ڈانس ہوگا" نیلم کی بات پر دانیہ بھی ہنس دی۔ لیکن مینال بس مسکرا ہی پائی۔
"مینو۔۔۔ سنو۔۔۔ کیا تمہارے پاس اس کلر کے ائیرنگز ہوں گے۔ مجھے مل ہی نہیں رہے" نیلم اب مینو سے بولی۔
"ہاں رکو" وہ وہیں کیبین سے اپنا جیولری باکس اسے تھما چکی تھی۔۔۔۔۔۔ دائم صاحب اپنے ازلی انداز میں انٹری مار چکے تھے۔
"ارے لڑکیو۔۔۔ تم کتنی سست ہو۔
مہندی کا فنکشن رات کو تھا مگر دن سے ہی سب نے اپنی اپنی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ حانی صبح کا گاڑی لیے نکلا ہوا تھا۔۔۔گھر کی ساری سجاوٹ ہفتہ پہلے ہی ہو چکی تھی۔ بس آج لان میں تازہ اور نئے پھول لگوائے جا رہے تھے۔وہ بھی جیسے اپنی ویرانی سمیٹے ہوئے باہر نکل آئی۔۔۔۔ چہرے پر میک آپ سے رات کی ہر تکلیف چھپانے میں وہ کافی کامیاب تھی۔۔۔۔اسے امید تھی جیسے یہ طوفان بنا کسی نقصان کے ٹل جانے والا تھا جو اسکی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔۔۔۔۔چار بج چکے تھے۔
"دانیہ یہ رہا آپکا ڈریس اور یہ جیولری۔ دائم دو بار آچکا ہے کہ اگر پارلر جانا ہے تو آجائیں" ویسے تو دائم صاحب کو کاموں سے بہت الرجی تھی مگر آج تو اسکی پھرتیاں واقعی قابل داد تھیں۔۔ دانیہ بھی مسکرا دی۔ مینو فل وقت جینز اور بلیک اینڈ گولڈن شارٹ فراک میں ہی تھی۔ بالوں کو اس نے کھلا چھوڑ رکھا تھا۔
وہ دونوں ہی اب حانی کی سنجیدگی نوٹس کر چکے تھے۔
"ہیں۔۔ انکو کیا ہوا ہے" نیلم ، حانی کو جاتا دیکھ کر فکر لیے بولی۔
"پتا نہیں۔۔۔ غمگین سا غصہ لیے ہوئے تھے" دائم بھی اپنی گہری ریسرچ کیے بولا۔
"مگر کیوں۔" نیلم نے منہ بنائے کہا۔
"شادی پر اکثر لڑکے دکھی ہو جاتے ہیں۔" دائم نے کسی گہری سوچ میں ڈوبے کہا تو نیلم بھی ہنس دی۔
"تم اپنی الٹی فلاسفی پاس رکھو۔۔۔ ایسا لڑکیوں کے متعلق کہا جاتا ہے مینٹل۔۔۔ وہ بھی ان کے لیے جو اپنا گھر چھوڑ کر کسی اور گھر جائیں۔۔۔۔۔۔ پر یہاں تو ایسا معاملہ بھی نہیں" اب تو نیلم کی اتنی لمبی وضاحت پر دائم کا بھی سر چکرا سا گیا۔۔۔
"ھاھا بندر" دائم کو کہتی ہوئی وہ بجلی کی سپیڈ سے بھاگی۔۔۔وہ بھی مسکرا کر پیچھے چلا گیا۔
◇◇◇
وہ وہیں فرش پر سر ٹکائے لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔نہایت افسردہ سی تکلیف میں لپٹی ہوئی وہ نیلی آنکھیں تو جیسے آج اپنی انتہا کا روئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
◇◇◇
"تم میرا ساتھ دو گے" صبح ہو چکی تھی۔سورج کی ہلکی ہلکی روشنی اب پردوں سے اندر آرہی تھی۔ دوسری طرف شاید صرف سناٹا تھا۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے حانی کے چہرے کی خطرناک وہشت، سنجیدگی میں بدلی۔۔
"مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔ لیکن جیسا کہ میں نے تمہیں ساری تفصیل بتائی ہے۔ اسکے بعد تم ہی بتاو کہ میرے پاس اور کیا چوائز بچتی ہے" حانی بالوں میں ہاتھ پھیرے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔۔۔۔
"تھینک یو سو مچ۔۔۔۔ تمہارا یہ حنوط مرتضی پر احسان ہے۔ ملتے ہیں" وہی سنجیدگی لیے وہ جونہی فون رکھے مڑا تو سامنے ہی دائم اور نیلم کھڑے دانت نکال رہے تھے۔۔۔۔
"گڈ مارننگ میرے دلہا بھیا" نیلم تو حانی کے ساتھ ہی لگ گئی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain