نیلم ٹی وی دیکھتے ہوئے مسکرا دی۔۔۔ حانی جب سے آیا تھا خود کو کافی تھکا اور الجھا محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ یک دم ہونے والا ہلکا سا ٹمپریچر اسے مزید بوجھل بنا رہا تھا۔
"نیم دراز ہوا ہوں۔۔۔۔ یہیں پر اوپر کو پیارا نہیں ہوا۔۔۔۔ ویسے کہاں کا ڈنر" حانی کے دماغ سے واقعی صبح کی بات نکل گئی تھی۔
"افسوس صد افسوس۔ آجکل لوگ صبح کی کہی بات بھی شام تک بھول جاتے ۔۔۔۔۔۔ جا ارحم یار مجھے ایک بندوق لا کر دے۔۔۔۔" دائم کی اداکاری کے جوہر دیکھتا ہر فرد ہنس دیا۔
"کوئی کہیں نہیں جائے گا۔۔۔۔ کیا یار۔۔۔ تم لوگ کبھی ہم بوڑھوں کو بھی وقت دے دیا کرو" رضوان صاحب بھی ٹراوزر، شرٹ پہنے وہیں آگئے۔۔۔۔
"جی اب آپکا ہی ہے وقت۔۔۔۔ لوگ تو بڑے بے مروت ہیں" وہ روٹھی محبوبہ بنے ارحم کو اٹھائے بولا تو حانی بھی ہنس دیا۔۔۔
"زیادہ تانے مت دے۔۔۔ طبعیت ناساز ہے۔۔۔۔ پھر کبھی پکا"
"تمہاری شادی اٹینڈ کرنے کے بعد ہی جاوں گا ڈونٹ وری۔۔۔۔" وہ پھر سے اپنی نیلی آنکھیں پھیلائے مسکرایا۔۔۔۔کھانا بھی اتنے میں آچکا تھا۔۔۔۔۔ حانی تو اسے ایک نظر دیکھ کر ہی رہ گیا۔
"ہممم۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکا" حانی کا افسردہ چہرہ دیکھے مقابل پھر سے دلکش مسکراہٹ ابھری ۔۔۔۔
"لیکن مجھے یقین ہے کہ جو ہوتا ہے وہ بہتر ہوتا ہے" وہ اسے مطمئین کیے اب کھانے کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔۔۔۔ حانی کی الجھن نے اسکے دماغ کو یوں جکڑا کہ وہ مینو کے انکار کی وجہ پوچھ ہی نہ پایا۔۔۔۔۔۔ وہ تو تب یاد آیا جب وہ گھر پہنچا۔۔۔۔۔۔ اپنی غائب دماغی پر اسے سچ میں افسوس ہوا۔
◇◇◇
"لو جناب۔۔۔۔ ہمیں ڈنر کا لارا لگا کر خود آپ یہاں صوفے پر نیم دراز پڑے ہیں" دائم نے لاونچ میں داخل ہوتے ہی رونی شکل لیے اپنا سر تھام لیا۔۔۔۔
ناچاہتے ہوئے بھی خود غرضی آرے آئی اور حانی نے اپنے اندر ایک عجیب سا اطمینان اترتے محسوس کیا۔۔۔۔۔
"ہمممم۔۔۔۔۔ تم نے بھی کونسا اس سے میری سفارش کی ہوگی۔۔۔" اب تو آذان شکوہ لیے بولا۔۔۔ کیا بتاتا کہ وہ یہ سفارش کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
"ہممم۔۔۔۔۔مجھے موقع ملتا تو کرتا۔۔۔ حالات تمہارے سامنے تھے آذان۔ مجھے خود اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس نے انکار کر دیا ہے" حانی نے جیسے معذرت خیز لہجئے میں کہا۔
"ہاں۔۔۔ اور آج باقاعدہ فیملی نے بھی مینو کا فیصلہ مجھ تک پہنچا دیا۔۔۔۔۔۔" تو گویا بات یہاں تک پہنچ گئی تھی اور حانی کو خبر تک نہ تھی۔
"مجھے دوبارہ سے جاب آفر ہو گئی ہے۔۔۔ لندن میں۔۔۔۔۔ سوچ رہا ہوں واپس چلا جاوں" اب تو حانی بھی اداس سا ہو چکا تھا۔
"ایسا مت کرو آذان ۔۔۔۔۔ " حانی نے ایک خفا نظر آذان پر ڈالتے کہا۔
اب تو واقعی وہ آذان کی بات نہیں سمجھا تھا۔۔۔
"کیا پتا ہوگا۔۔۔۔۔ اب بتا بھی دو یار۔۔۔۔ مجھے فکر ہو رہی ہے" حانی کے چہرے پر واقعی حیرت اور فکرمندی ابھری تھی۔
"مینال نے فل وقت شادی سے انکار کر دیا ہے" خود حانی کو یہ بات ابھی پتا چل رہی تھی اور وہ حیران سا چہرہ لیے آذان کی سمت دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
"ہممم۔۔۔۔ ایسا ہے کیا؟" حانی کے چہرے پر بھی الجھن ابھری۔
"ہاں۔۔۔۔۔ شاید اسی میں بہتری تھی" وہ اسے ناامید سا لگا تھا۔
"ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ کیا مینو نے خود تم سے کہا ہے یہ؟" اب تو حانی کو مزید تجسس سا ہوا۔
"ہاں۔۔۔ کچھ دن پہلے اتفاقا کیفے میں اس سے ملاقات ہوئی تھی۔" حانی کا دماغ یوں الجھا کہ وہ وجہ جاننے کی طرف دھیان ہی نہ دے پایا۔۔۔۔۔۔ آذان کے چہرے کی اداسی اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی کہ وہ مینو میں اچھا خاصا انٹرسٹڈ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لے آئیے" آذان اور حانی سیدھے ریسٹورنٹ آئے تھے۔ حانی نے آرڈر دیا تو ویٹر سر ہلائے چلا گیا۔۔۔ حانی کی نظر آذان پر گئی جہاں آج اسکی مسکراہٹ ادھوری اور مدھم سی تھی۔
"آر یو اوکے آذان۔۔۔۔ اتنی خاموشی۔۔۔ سب خیریت ہے" حانی کی بات پر وہ نارمل سے انداز میں مسکرایا۔
"یس۔۔۔۔ مجھے کیا ہونا ہے جناب۔۔۔۔ ایک دم فٹ۔ تم بتاو۔۔ کب ہو رہی ہے پھر شادی خانہ آبادی" آذان اپنے چہرے پر اپنی وہی دلکش جوشیلی مسکان لائے بولا تو جیسے حانی کو کچھ تسلی سی ہوئی۔
"ہو جائے گی جب ہونی ہوئی۔۔۔۔ تم آج مجھے کچھ الجھے لگ رہے ہو۔۔۔۔۔ بات بھی ٹال گئے ہو" حانی جیسے ہی بولا تو دوسری سمت سنجیدگی سی پھیلی تھی۔
"ہممم۔۔۔ بس یونہی" اب تو حانی کا شک، یقین میں بدلا تھا۔
"شئیر نہیں کرو گے۔۔۔۔" حانی کی نظریں اسکے چہرے پر فوکس تھیں۔
"تمہیں تو پتا ہوگا نا۔۔۔۔"
"تم دعا کرنا۔۔۔۔۔خوش رہنا دوبارہ سیکھ سکوں" وہ اسے پھر سے لاجواب کر رہا تھا۔
"سیکھ جاو گے" وہ پر امید تھی۔
"تم بھی خوش رہنا سیکھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ اسے ہدایت کر رہا تھا۔
"ہاں میں خوش ہوں"یہ سب سے بڑا جھوٹ تھا اور وہ جانتا تھا۔۔۔وہ چپ رہنا چاہتا تھا۔
"رکھتی ہوں" فون رکھتے ہوئے جیسے اسکے چہرے کی افسردگی میں بے حد اضافہ ہوا۔۔۔۔۔۔دوسری طرف بھی سناٹا سا تھا۔
◇◇◇
"اگر میرے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو خود کو نارمل کرو۔۔۔۔تم مجھے عزیز ہو اور رہو گے۔۔ یہ نیا سفر تمہارے لیے مبارک ہوگا" وہ اپنی اداس نیلی آنکھیں پھیلائے تھی۔
"ہممم۔۔۔۔ تم آو گی؟" وہ جیسے ہر بات نظر انداز کیے بولا۔
"تم بلا پاو گے؟" وہ واقعی ظالم تھی۔
"کیوں نہیں۔۔۔۔۔ میری دلہن سجانا ناں۔۔۔۔۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب عادی ، مینو کو دیکھ کر اپنے ارادے بدل دیتا تھا" مینو کو لگا وہ تلخی سے تنز کر رہا ہے۔۔۔۔ اور اتنا تو اسکا حق بنتا تھا۔
"میں یہی چاہتی ہوں کہ تمہیں میرے کسی عمل سے کوئی فرق نہ پڑے۔۔۔۔۔۔ میں ضرور آوں گی لیکن تب جب مجھے لگے گا کہ میری ضرورت ہے" وہ سنجیدگی کئ انتہا پر تھی۔
"تمہاری ضرورت کہاں نہیں ہے مینو" وہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔
"مجھے انتظار رہے گا" وہ بولا تھا۔
"ہمممم۔۔۔۔۔ خوش رہنا۔۔۔۔۔" وہ شاید اب فون بند کرنے والی تھی۔
اور کس کس تکلیف کی معافی مانگے۔ اردگرد نظر دہرائی تو سناٹے کے سوا کچھ بھی دیکھائی نہ دیا۔امریکہ میں وہ دو لوگوں کے بیچ رہ کر بھی کبھی اکیلی نہیں تھی۔۔۔۔۔ مگر یہاں تو جیسے وہ خود کو سب کے بیچ بھی تنہا محسوس کر رہی تھی۔ دل میں جاگتی ہوئی وہ سب محبت اور خواہش جیسے پھر سے سر اٹھائے اسے نڈھال کر چکی تھی۔۔۔ اس نے کب سوچا تھا کہ وہ کسی کے لیے یوں تکلیف بن جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ناچاہتے ہوئے بھی عادل کے دکھ کی وجہ تھی۔ مگر وہ بے بس تھی۔۔۔۔ خود اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی۔۔۔۔۔ پھر یکدم جیسے وہ اپنے خیالات سے باہر آئی۔۔۔ عادی کا جگمگاتا نام اسکے فون کی سکرین پر روشن تھا۔۔۔۔۔۔ کیا وہ بھی اسے ہی یاد کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ فورا فون اٹھائے کان سے لگا چکی تھی۔۔۔ گویا ایک بار پھر عادی نے اسے پہل کرنے کی زحمت سے بچا لیا تھا۔
"کیسے ہو عادی؟"
حانی تم۔۔۔۔۔ واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز۔۔۔۔ نہیں یونہی" وہ حیرت انگیز سئ خوشی لیے اس سے بگل گیر ہوا اور ساتھ ہی گہرے خیالات والی بات کی نفی بھی کی۔
"بس آج یونہی دل کیا کہ تم سے ملاقات کی جائے۔ " حانی بھی مسکرا دیا تھا۔
"بہت اچھا کیا۔۔۔۔۔چائے؟ یا کافی؟" آذان بھی دلگیر انداز لیے تھا۔
"کچھ نہیں۔۔ کہیں باہر چل کر کھاتے ہیں۔۔۔۔ کیا خیال ہے" حانی کا خیال اسے بھی اچھا لگا۔۔۔
"ٹھیک ہے جناب۔۔۔۔ جو حکم" آذان کی فرمابرداری پر وہ دونوں ہی مسکرائے تھے۔۔۔
◇◇◇
کتنی دیر سے وہ مسلسل لان میں بیٹھی تھی۔۔۔۔ دانیہ اور حانی آفس تھے۔۔۔۔ دائم اور نیلم بھی آج کسی کام سے یونی گئے تھے جبکہ دونوں گھر کی خواتین آج پھر مارکٹ گئی تھیں۔۔۔۔ وہ فون ہاتھ میں لیے اسئ کشمکش میں تھی کہ وہ عادی کو کال کرے یا نہ کرے۔۔۔۔۔۔ کرے بھی تو اسے کس چیز کی مبارک دے
"دل تو رہا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر کیا چھوٹا کیا بڑا۔۔۔۔۔ یہ رہائی تو اب عمر بھر کی اسیری ہے۔۔۔" فون رکھتے ہی اس چہرے پر تاریکی سی پھیلی۔۔۔۔وہ نیلی آنکھیں بھی حد درجہ اداس تھیں۔
"کیا میں اسے دعاوں میں مانگنا چھوڑ دوں اب؟" وہ خود کلامی کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ دل نے جیسے سرزنش کی۔۔ خبردار جو ایسا کیا۔۔
"نہیں ہے وہ میری۔۔۔۔ اسے میرا ہونا ہی نہیں۔۔۔ یا تو اسے میرے دل سے بھی نکال دے مالک یا اسے مکمل میرا بنا" اور پھر جیسے وہ نیلی آنکھیں، نیلے ہی موتیوں سے پہلی بار بھیگ سی گئیں۔۔۔۔ خود کو کنڑول کیے جیسے وہ آنکھوں کی یہ پاگل سی نمی صاف کیے مسکرایا۔۔۔۔۔۔
"اوہ مائی گارڈ۔۔۔۔ اس قدر گہری سوچیں۔۔۔ آذان صاحب خیریت تو ہے" بے بی پنک شرٹ اور وائٹ تھری پیس میں حانی کی غیر متوقع آمد تو گویا واقعی اسے خیالوں سے دنیا کی حقیقتوں میں لائی تھی۔۔
بی جی۔۔۔۔۔ آپ کو کہا تھا نا کہ مت جائیں۔۔۔۔ خیر اب آپ اس ٹاپک کو کلوز کر دیں" وہ خفا سا تھا۔۔ جبکہ حبیبہ اداس تھیں۔ انہوں نے آتے ہی اسے کال کی۔ وہ تب ہوسپٹل میں تھا۔
"تو چاہتا ہی یہی تھا میرے بچے۔۔۔۔ اللہ بھی نییتیں دیکھتا ہے۔۔۔ پہلے تو شادی سے بھاگتا تھا اور اب شادی تجھ سے" وہ کافی خفگی اور اداسی لیے تھیں۔۔۔ آذان نے ایک بوجھل سی آہ بھری۔ کیا بتاتا کہ اس بار تو اس نے سچ میں مینال مرتضی کا ہونے کی خواہش کی تھی۔۔۔۔۔دل سے مینال کو مانگا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے لگا جیسے اسکی ساری دعائیں واپس لوٹ آئی ہیں۔۔۔۔ کوئی بھی قبولیت کے درجے تک نہیں پہنچی۔
"آذان دل چھوٹا مت کر میرے بچے" وہ جیسے فون کے اس پار بھی اسکی خاموشی سمجھ گئیں۔ اور وہ تلخی لیے مسکرا دیا۔
"نہیں کرتا۔۔۔۔ چلیں رکھتا ہوں۔۔۔ گھر آکر بات کرتے ہیں" وہ جیسے خود تک سے خفا سا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مینو کا نصیب ، آذان کے ساتھ جڑا ہے تو ہم یہی باتیں ایک بار پھر کریں گے۔۔۔ لیکن وقت آنے پر۔۔۔۔" تو گویا ان ڈائریکٹلی انکار ہی تھا کیونکہ حبیبہ کب انتظار کرنے والی تھیں۔۔۔ انھیں تو آذان کی فوری بیوی درکار تھی۔
"ہممم۔۔۔۔ چلیں جیسا اوپر والی کی رضا" بظاہر مطمئین دیکھائی دینے والی حبیبہ اندر سے بے حد افسردہ سی تھیں۔۔۔
"آئیے آپا۔۔۔ کھانا لگ گیا ہے" سب نے انھیں دن کے کھانے کے بعد ہی جانے دیا تھا۔۔۔
◇◇◇
"آپ جب مرضی آئیے بہن۔۔۔ یہ آپکا اپنا گھر ہے" مہران صاحب بہت دھیمے انداز میں بولے تو وہ ہلکا سا مسکرا دیں۔
"جی بھائی صاحب بلکل۔۔۔۔ تو پھر میری الجھن کو حل بھی کر دیجئے۔۔۔ کیا سوچا پھر آپ نے" جانتے بوجھتے بھی وہ پوچھ رہی تھیں کہ جیسے حقیقت بدل جائے گی۔
"دراصل حبیبہ بہن۔۔ بات یہ ہے کہ ہمیں آذان بچے کا رشتہ بے حد پسند ہے مگر فل وقت مینال شادی نہیں کرنا چاہتی۔ ویسے بھی اتنی جلدی شادی کے حق میں، میں خود بھی نہیں ہوں۔ ابھی تو اسکے زندگی کو انجوائے کرنے کے دن ہیں۔۔۔۔" مہران صاحب نے بات مسکراہٹ سے شروع کرتے ہوئے سنجیدگی پر ختم کی۔۔۔۔ تو گویا حبیبہ بھی سنجیدگی لیے تھیں۔
"جی۔۔۔ تو اگر ہم صرف رشتہ طے کر دیں۔۔۔شادی پھر جب مینو چاہے تب کر لیں گے" وہ جیسے آج اپنی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتی تھیں
"سب نصیب کی بات ہے بہن۔
مینو فون بند کیے بیڈ پر رکھتے ہوئے سر بیڈ کی پشت سے ٹکا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ چہرے پر جیسے ہلکا سا اطمینان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ اس سے ناواقف تھی کہ عادی بہت جلد ایک بہت بڑا کام کرنے والا تھا۔۔۔۔۔ وہ حانی کا نمبر حاصل کر چکا تھا۔۔۔۔ بس اب ہمت درکار تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ شدید ہمت۔۔۔
◇◇◇
حبیبہ کی اچانک آمد ہوئی تھی۔۔۔ آذان کے منع کرنے کے باوجود وہ ایک بار پھر قسمت آزمانے آئی تھیں۔۔۔۔ مینال انکے بیٹے کی خوشی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتی تھیں۔۔ ویسے بھی مہران صاحب نے ابھی انکو کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
"آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔ فون کرنا مجھے مناسب نہیں لگا تو سوچا میں خود جا کر جواب لے آوں" مہران صاحب سامنے ہی براجمان تھے۔ جبکہ رضوان آفس تھے۔۔ نادیہ اور ماہین بھی وہیں بیٹھی تھیں۔
مہر کے چہرے پر ایک بار پھر اداسی ابھری۔
"میں؟" مینو کی بات پر مہر چپ سی ہوئی۔
"اس دن بہت زیادہ بول گئی تھی۔۔۔ تم خفا نہ ہونا میری جان۔۔۔ اور ہو سکے تو آنے کی کوشش کرنا" مینو کی اداسی بھی کچھ تیز ہوئی۔
"میں خفا نہیں ہوں مہر۔۔۔۔ خفا تو جھوٹ پر ہوا جاتا ہے۔۔۔۔ " دوسرئ بات مینو ایک بار پھر اگنور کر گئی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔ نہیں آو گی نا" مہر افسردہ سی بولی۔
"وہ مجھے نہ ہی بلائے تو اچھا ہے۔۔۔۔۔۔" مینو نارمل سی ہوئی۔ دوسری طرف کچھ لمحے کو خاموشی پھیلی۔
"پر وہ چاہتا تو ہوگا کہ تم آو" مہر کے لہجے میں آس تھی۔
"یعنی مینال مرتضی کے امتحان کڑے اور لگاتار ہیں" وہ جیسے تلخی لیے مسکرائی تھی۔۔۔
"میری دعا ہے کہ اب یہ امتحان ختم ہو جائیں۔۔۔ خیر میں جلد پاکستان آجاوں گی۔۔۔۔۔ تم اپنا خیال رکھنا" مہر تو عادی اور مینو دونوں کی ہر اک اداسی سے واقف تھی۔۔۔۔۔
آہاں۔۔۔ تو پھر جلدی سے بتا دو نا" مینو بھئ متوجہ سی ہوتے بولی۔
"دو ہفتے بعد عادی اور حرا کا نکاح فائنل کر دیا ہے۔۔۔ وہ ہتھیار ڈال چکا ہے" مہر کی پرجوشی ابھی تک قائم تھی۔ اور مینو ایسئ ہی کسی خبر کی منتظر تھی۔۔۔ اسے خوشی تھی کہ عادی نے ایک عقل مندانہ فیصلہ کیا ہے۔
"ڈالنا بھی چاہیے تھا۔۔۔۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اس نے ایک بار پھر میری بات کا مان رکھا ہے" مہر سمجھ تو گئی تھی کہ مینو نے اس سے بات کی ہے مگر اب اسے یقین سا ہوگیا۔
"ہاں۔۔۔۔لیکن یہ تو میں اور تم جانتی ہیں ناں کہ وہ اپنے دل کو مارنے کے بعد ہی اس فیصلے پر راضی ہوا ہے۔ بس اب چاہتی ہوں کہ وہ خوش رہے۔۔۔۔۔ ورنہ یہ احساس جرم مجھے ستاتا رہے گا" مہر کے لہجے میں اداسی سی تھی۔۔۔
"وقت کے ساتھ وہ خوش رہنا بھی سیکھ جائے گا" مینو نے گویا تسلی سی دی۔
"ان شاء اللہ ۔۔۔۔ تم آو گی مینو؟"
اب تو دانیہ اور حانی دونوں ہی شاک سے ان تینوں کی طرف متوجہ تھے۔
"مینو باجی۔ لینڈ لائن پر آپکے لیے آپکی دوست کا فون ہے" اسی دوران مینو کو ملازمہ نے بتایا۔ کل پورا دن وہ مہر کو کال کرتی رہی تھی پر پتا نہیں سگنلز کا کوئی مسئلہ تھا جس وجہ سے ہو نہیں پائی تھی۔۔۔
"جی اچھا۔۔۔ میں آتی ہوں" مینو کے جاتے ہی دوبارہ سے سب ان تینوں کے پلین پر مسکرا دیے۔
"تو پاگل ہم سب ایک ساتھ بھی تو جا سکتے تھے نا۔" حانی بھی اب ہنسا۔۔
"جی جی پھر کونسے علاقے کا سرپرائز ہوتا۔۔ اور مفت کی تین ہڈیاں بھی ساتھ ہوتیں" اب تو دائم کی بات پر سب ہنس دیے۔۔۔
"تم لوگ ہرگز ہڈیاں نہیں ہو۔ جان ہو ہماری۔۔۔ اگلا ڈنٹر آج سب ساتھ کریں گے۔۔۔۔۔ اوکے" حانی نے مسکرا کر ناشتہ ختم کرتے کہا تو وہ بھی دانت نکال رہے تھے
"وہ دانیہ آپی۔۔۔۔ کان تو چھوڑیں۔ لمبا ہو گیا تو مجھ ہاتھی سے کون شادی کرے گی" اب تو سب ہی اسکی دہائی پر مسکرا دیے۔ اسکو ابھی بھی اپنی ہی فکر تھی۔۔۔
"تم فکر مت کرو۔۔۔ایک بندی ہے ایسی جو بڑے شوق سے یہ عظیم قربانی دے گی" دوسری طرف ماہین کی سرگوشی نے جیسے دائم کا دو کلو خون بڑھایا۔۔۔۔ نظر بے ساختہ سی سامنے بیٹھی نیلم پر گئی۔۔۔۔
"ھا۔۔۔ ھااااااااا ۔ ہماری اتنی قسمت" اسکی آہ پر اب نیلم بھی ہنسی ضبط کر گئی جبکہ دانیہ نے جیسے کان کی گرفت مزید مضبوط کی۔۔۔
"سچ بتاو تم تینوں۔۔ کل آخر چکر کیا تھا؟" اب تو ان تینوں کے منہ دیکھنے والے تھے۔ دانیہ نے بھی کان چھوڑ سے دیے۔
"ھاھا دراصل ان تینوں نے تم دونوں کے لیے سرپرائز کینڈل ڈنڑ کا بندوبست کیا تھا۔۔۔۔۔ پر بچاروں کا سارا پلین دائم کی پھٹیچر گاڑی نے خراب کر دیا۔۔۔ ٹیبل کی ریزرویشن بھی ضائع چلی گئی"
ناشتے پر اچھی خاصی خاموشی کے بعد آخر حانی بول ہی پڑا۔
"ویسے کتنی غلط بات ہے۔ تم تینوں نے کل ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اکیلے ہی نکل گئے سیر سپاٹوں کو۔ وہ بھی ہم دونوں بچاروں کو چھوڑ کر" حانی کی بات پر دائم، مینو اور نیلم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ کیونکہ وقت آگیا تھا کہ انکی شامت آئے۔۔۔ دانیہ تو حیران تھی ہی جبکہ ماہین اور نادیہ بمشکل ہنسی دبائے ہوئے تھیں۔۔۔۔۔
"ہیں۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔دائم نے تو کہا تھا کہ مینو سو گئی جبکہ تم نے صاف منع کر دیا" دانیہ برے طریقے سے انکا بھانڈا پھوڑ چکی تھی۔۔۔ اب تو حانی بھی مشکوک نظروں سے ان تینوں کو دیکھ رہا تھا۔جبکہ رضوان، مہران ، ماہین اور نادیہ اب ہنس رہے تھے۔
"شک تو مجھے بھی ہوا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔۔" دانیہ اب پاس بیٹھے دائم کا کان پکڑ چکی تھی جبکہ اسکا منہ دیکھ کر سب ہنس دیے۔۔۔
"نہیں ہوں خفا۔۔۔۔ آپ خود دیکھیں نا اب تو سڑکیں بھی سنسان ہیں۔ ہم پھر پکا آجائیں گے۔۔۔ وعدہ رہا" اسے مسکراتا دیکھ کر بھی وہ مطمئین نہ ہو سکا۔
"ہمممم لیکن مجھے اب برا لگ رہا ہے۔۔ اتنے وقت بعد تم نے یوں باہر آنے کا کہا اور۔۔۔ خیر چلتے ہیں" وہ اب گاڑی موڑے سٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔۔
"اداس تو نہ ہوں جونئیر ہنڈسم۔۔۔۔ چلیں ایسا کرتے ہیں ہم آئس کریم کھا لیتے ہیں" حانی نے ایک نظر مینو کو دیکھا اور مسکرا دیا۔
"ٹھیک ہے" وہ بھی جیسے مطمئین انداز میں مسکرا دیا۔۔۔ وہ دونوں آئس کریم کھانے کے بعد ہی گھر لوٹے تھے۔۔۔ وہ تینوں تو پہلے ہی آکر اپنے اپنے کمروں کی سمت روانہ ہو چکے تھے۔۔۔
"گڈ نائیٹ۔۔۔ اینڈ تھینک یو حانی" وہ جاتے جاتے بولی اور وہ کتنی دیر تک اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہی آدھی ادھوری مسکراہٹ۔۔۔ جس کے نصیب میں مکمل ہونا لکھا ہی نہیں تھا۔
◇◇◇
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain